اسکاٹ لینڈ: دنیا میں اب تک صرف دو مریض ایسے ملے ہیں جنہیں کسی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا بلکہ جینیاتی کیفیت کی وجہ سے وہ ہرطرح کے ڈپریشن، ذہنی تناؤ اور بے چینی سے بھی محفوظ ہیں۔ ان میں اسکاٹ لینڈ کی 71 سالہ خاتون جو کیمرون بھی شامل ہیں۔
حیرت انگیز طور پر انہیں 65 سال کی عمر میں اپنی اس خاصیت کا ادراک اس وقت ہوا جب ڈاکٹروں نے ان کے ہاتھ کا ایک طویل آپریشن کیا اور اس کے بعد انہیں درد کم کرنے کی کوئی دوا نہیں دی گئی اور انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ آپریشن کے کئی روز تک انہیں شدید تکلیف ہوگی لیکن جو اس درد سے بے نیاز رہیں۔
بعد ازاں یونیورسٹی کالج لندن اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے جینیاتی ماہرین نے ان کے کئی ٹیسٹ کئے۔ معلوم ہوا کہ وہ ایک نایاب جینیاتی کیفیت کی شکار ہیں جو درد کی منتقلی ، رویے اور یادداشت کے سگنل کو آگے بڑھنے نہیں دیتا جس سے خاتون کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔
اس سے قبل ان کے کولہے کی ہڈی متاثر تھی اور وہ چلنے میں دقت محسوس کررہی تھیں لیکن درد نہ ہونے کی بنا پر ڈاکٹروں نے ان کا ایکس رے نہیں کرایا۔ لیکن ان کے کولہے کا آپریشن کرایا گیا تو اس کے بعد درد کم کرنے
کے لیے خاتون نے صرف دو پیراسیٹامول روزانہ کھائیں اور انہیں کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی۔
اس کے بعد ان کے ڈاکٹروں نے خاتون کے انگوٹھے کو نوٹ کیا جو شدید گٹھیا (اوسٹیوآرتھرائٹس) کے مریض کی وجہ سے ٹیڑھا ہورہا تھا لیکن درد محسوس نہ ہونے پر خاتون اس سے لاپرواہ تھیں۔ اس کے لیے خاتون کا تکلیف دہ ڈبل ہینڈ آپریشن کرنا پڑا جس کے بعد کئی دن درد محسوس ہوتا ہے لیکن خاتون صرف دو پیراسٹامول سے ہی اپنی تکلیف دور کرتی رہیں۔
خاتون نے کہا کہ انہیں اپنے بچے کی ولادت کے وقت بھی کوئی درد نہیں ہوا اور کئی مرتبہ انہوں نے باورچی خانے میں اپنا ہاتھ بھی جلایا مگر جلنے کے احساس سے عاری رہیں۔
اس کے علاوہ وہ کبھی غمزدہ نہیں ہوتیں اور مایوسی کے نام سے بھی واقف نہیں۔ تاہم گٹھیا کے مرض کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے قاصر رہیں اور مرض کا احساس نہیں کرسکیں اس بنا پر انہوں نے کہا کہ زندگی کے لیے درد کا احساس بھی بہت ضروری ہے۔
ماہرین کے مطابق خاتون درد اور احساسات سے وابستہ ایک اہم جین میں تبدیلیاں رکھتی ہیں لیکن اس کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ وہ بہت بھلکڑ ہیں اور اکثر باتیں اور معاملات بھول جاتی ہیں