کراچی۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے ہیں کہ سندھ کی صورتحال پر افسوس ہے اور ہم اسے بدلنا چاہتے ہیں،زمین پر سب سے بڑی نعمت ہی پانی ہے ،ہم اور آپ مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرتے ہیں اور اگر ہماری مدد کی ضرورت ہے تو ہم سے مدد لیں، یہ طے ہے کہ یہ مسئلہ حل ہونا ہے، ہم نہیں چاہتے کہ اختیارات ہوں تو حکومت پرچڑھائی کردیں، غیرجانبداری کے ساتھ عوامی مفادات کے لیے آئینی کردارادا کریں گے، جب بھی خلاء ہوگا، عدلیہ خلاء پرکرتی ہے، عدالت کو لکھ کر دیں یہ مسائل کب، کیسے حل کریں گے،وزیراعلیٰ سندھ کراچی میں صاف پانی کی فراہمی کے مسائل سے متعلق مفصل رپورٹ فراہم کرے۔
سپریم کورٹ نے سیکرٹری بلدیات سے بھی جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 23 دسمبر تک کے لئے ملتوی کردی ۔بدھ کوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں کراچی کو آلودہ پانی کی فراہمی اور نکاسی آب سے متعلق کیس کی سماعت کی۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور سابق سٹی ناظم کراچی مصطفی ال سپریم کورٹ رجسٹری کی جانب سے طلبی پر عدالت میں پیش ہوئے۔کمرہ عدالت میں آلودہ پانی سے متعلق درخواست گزار شہاب اوستو کی جانب سے پیش کردہ دستاویزی فلم دکھائی گئی۔دستاویزی فلم دکھائے جانے کے وقت وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، معزز عدالت مجھے کچھ کہنے کی اجازت دے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو پورا موقع دیں گے اور سنیں گے بھی۔
دستاویزی فلم مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ وزیراعلیٰ صاحب دستاویزی فلم دیکھ کر احساس ہوتا ہے، کیا آپ کو نہیں ہوتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس زمین پر سب سے بڑی نعمت ہی پانی ہے اور مراد علی شاہ صاحب ہم لوگوں کو صاف پانی بھی مہیا نہیں کررہے، اس کیس کو مخاصمانہ نہ لیجئے گا، ہم نے بڑے عزت و وقار اور احترام سے آپ کو بلایا ہے۔جسٹس میاں ثاقب نثار نے وزیراعلیٰ سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جہاں کہیں وہاں میں اور آپ جا کر اس پانی کی ایک ایک بوتل پی لیتے ہیں ۔چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ سندھ سے استفسار کیا کہ ہم اور آپ مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرتے ہیں اور اگر ہماری مدد کی ضرورت ہے تو ہم سے مدد لیں۔چیف جسٹس آف پاکستان نے وزیراعلیٰ سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے چیرمین بلاول زرداری میرے بچوں کی طرح ہیں اور وہ دیکھیں کہ لاڑکانہ اور دیگر شہروں کے لوگ کون سا پانی پی رہے ہیں، خواہش تھی کہ بلاول بھی یہاں ہوتے اور صورتحال دیکھتے اور انہیں بھی معلوم ہوتا کہ لاڑکانہ کی کیا صورتحال ہے۔
اس موقع پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ کو مسائل حل کرنے کے لئے لوگوں نے منتخب کیا، انتظامیہ کی ناکامی کے بعد لوگ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں، پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت میں کوئی معاملہ عدالت تک نہیں آیا۔کمرہ عدالت میں روسٹرم پر موجود وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ جو ویڈیو عدالت میں دکھائی گئی وہ درخواست گزار کی بنائی ہوئی ہے، صورتحال اتنی سنگین نہیں، موقع ملا تو بہت جلد سپریم کورٹ میں اپنی ویڈیو پیش کروں گا۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ شاہ صاحب آپ اس ویڈیو کو چھوڑیں مگر کمیشن کی رپورٹ ہی دیکھ لیں اور اس کی سنگینی کا جائزہ لیں، کمیشن کی رپورٹ مسئلے کے حل تک پہنچنے کا ذریعہ ہے اور رپورٹ میں جو نشاندہی کی گئی ہے اس سے مدد لیں۔چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ آپ ہمیں حل بتا دیں ایک ہفتہ میں 10 دن میں کے یہ حل ہے، پھراس پرہم سب مل کر کام کریں گے اور انشا اللہ 6 ماہ میں یہ مسئلہ حل ہوجائے گا، ہمیں جواب دینا ہے ،یہ ہماری ذمہ داری ہے جس پر مراد علی شاہ نے کہا کہ 6 ماہ میں یہ کام مکمل نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ مہلت مانگیں گے تو ہم وقت بڑھا دیں گے، آپ کی کچھ زمہ داریاں بھی ہیں، کیا ہمیں نہیں پتہ رشتہ داروں کو ٹھیکے دئیے جاتے ہیں، مگر ہم ان چکروں میں نہیں پڑنا چاہتے۔
ہمیں پلان بتائیں، عدالت پورا تعاون کرے گی۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ منتخب ہونے کے بعد طے کیا تھا کچھ مثالیں قائم کروں گا، سمت درست کرنے کی کوشش کررہا ہوں، یقین دلاتا ہوں آپ کو کام نظر آئے گا پر عدالت سے کچھ وقت دینے کی استدعا ہے۔چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ سندھ سے کہا کہ یہ طے ہے کہ یہ مسئلہ حل ہونا ہے، ہم نہیں چاہتے کہ اختیارات ہوں تو حکومت پرچڑھائی کردیں، غیرجانبداری کے ساتھ عوامی مفادات کے لیے آئینی کردارادا کریں گے، جب بھی خلہ ہوگا، عدلیہ خلہ پرکرتیں ہیں، بد دیانتی کا کوئی ثبوت نہ ملے آپ کا کہا سچ مان لیتے ہیں، سندھ میں کون کون زمہ داریوں پر رہا وہ سب ابھی نہیں دیکھ رہے، لیکن جو بھی ذمہ دار رہا، اسے چھوڑیں گے نہیں، عدالت کو لکھ کر دیں یہ مسائل کب، کیسے حل کریں گے۔وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم حکمت عملی، طریقے، مالیات وسائل سے متعلق عدالت کو ٹائم فریم دے دیں گے، جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ لائٹ موڈ سمجھیں یا سنجیدہ، یہ طے ہے کہ کام ہونا ہے اور ہونا بھی جلدی ہے، یہ آپ ہی کا کام ہے، آپ نے ہی کرنا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عہدے انجوائے کرنے کے لیے نہیں، سروس کے لیے دیے جاتے ہیں، کمیٹی بناکر ان پر مت چھوڑا کریں، میں کچھ مزید کہنا نہیں چاہتا جس پر وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ آپ سب کچھ کہہ بھی رہے ہیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کہنا نہیں چاہتا، 6 ماہ کی مدت میں یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے، دیگر صوبوں میں بھی ایسے ہی مسائل ہیں، کہیں تو بیان کروں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے بھی نہ کہتے ہوئے۔
سب کہہ دیا کہ سب اچھا ہے۔چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ سندھ سے استفسار کیا کہ سال میں دریائے سندھ کا کتنا پانی سمندر میں جاتا ہے، آپ اس پانی کو کراچی کے لوگوں کی ضروریات کیلئے کیوں استعمال نہیں کرتے۔ وزیراعلٰی سندھ نے کہا کہ دریائے سندھ میں پانی بہت کم ہوتا ہے، جب سیلاب آتا ہے تو ہم سوچتے ہیں اور جب پانی کم ہوتا ہے تو ہم سوکھتے ہیں، پانی کی قلت کے باعث بدین اور ٹھٹہ تباہ ہورہے ہیں، دریا کا پانی کم ہونے کے باعث سمندر بڑھتا جارہا ہے، دریا کا پانی کم ہونے کے باعث سمندر بڑھتا جارہا ہے، سمندر کو روکنے کیلئے جتنے پانی کی ضرورت ہے وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جو کمیٹیاں بنتی ہیں ان کے اراکین اورسربراہ کس کس کے رشتہ دارہوتے ہیں وہ پتہ ہے، ہم کسی کا نام نہیں لیں گے، جس پر وزیر اعلٰیٰ نے کہا کہ آپ نے نام لیکر بھی سب کچھ بتا دیا، تھر میں 5 سو میں سے 410 آر او پلانٹس فعال ہیں، ان پلانٹس کو اب سولرانرجی پرمنتقل کیا جارہا ہے، دوسرے مرحلے میں 650 آراو پلانٹس لگائے جارہے ہیں، سیشن جج تھرپارکر کی رپورٹ کے مطابق بھی پلانٹس فعال ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو صاف پانی ملے اور سمندر کو غلاظت سے بچایا جائے، ہم اپنا فوکس نہیں چھوڑسکتے ہمیں بتائیں کمیشن کی رپورٹ میں کوئی غلطی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پانی صاف ملنا شروع ہوجائے لوگ اس پانی سے وضو کرسکیں تو ہمارا مقصد پورا ہوجائے گا، یہاں یقین دہانی کرا کے جائیں کہ مسئلہ حل ہوجائے گا، آپ کی پارٹی کی کوششوں سے اٹھارہویں ترمیم آئی ہے اور اختیارات صوبوں کو مل گئے ہیں، تعلیم اورصحت آپ کے پاس ہے مسئلہ بھی حل کریں، ہم ایک ماہ نہیں ایک سال دینے کو تیار ہیں مگر بتائیں کب ہوگا، ہمیں ٹائم فریم دیں گے اس کے سوا کچھ نہیں اور ہم دوسرے صوبوں کو بھی کہتے ہیں صاف پانی دیں۔وزیراعلیٰ سندھ کے بعد کراچی کے سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال روسٹرم پر آئے اور عدالت کو بتایا کہ پانی کی فراہمی اور سیوریج مسائل کا حل وزیراعلی کا نہیں بلکہ مقامی حکومتوں کا کام ہے۔مصطفی کمال نے کہا کہ ہمارے دور حکومت میں کے تھری اور فور منصوبے متعارف کرائے گئے، کراچی کو روزانہ 1250 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے اور کے فور منصوبہ بھی پانی کی کمی کو پورا نہیں کرپائے گا۔مصطفیٰ کمال نے کہا کہ کراچی شہر کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے اور 2020 تک آبادی 3 کروڑ سے تجاوز کر جائے گی جب کہ کراچی کو سندھ کے حصہ کا 1.51 فیصد پانی دیا جارہا ہے۔سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ سندھ سے کراچی میں صاف پانی کی فراہمی کے مسائل سے متعلق مفصل رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 23 دسمبر تک کے لئے ملتوی کردی جب کہ عدالت نے سیکرٹری بلدیات سے بھی جواب طلب کرلیا۔خیال رہے کہ سندھ میں نکاسی آب سے متعلق سماعت گزشتہ برس سے جاری ہے، عدالت نے درخواست گزار شہاب اوستو کی درخواست پر جڈیشل واٹر کمیشن بھی تشکیل دیا تھا۔
جسٹس اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں قائم عدالتی کمیشن نے مارچ 2017 میں سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ بھی جمع کرائی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ صوبہ سندھ کے شہریوں کو فراہم کیے جانے والے پینے کے پانی میں ہیپاٹائٹس بی، جگر کے سرطان، خون کی کمی اور بچوں کی نشوونما میں رکاوٹ ڈالنے والے وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔اس کمیشن کا مقصد سندھ میں پینے کے صاف پانی، صحت و صفائی کی صورت حال اور صحت مند ماحول کے حوالے سے انتظامیہ کی ناکامی پر کیے گئے خدشات کی تحقیقات کرنا تھا۔اسی کمیشن نے 4 جنوری 2017 کو پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورس (پی سی آر ڈبلیو آر) کو صوبے کے عوام کو فراہم کیے جانے والے پانی کی حیاتیاتی اور کیمیائی جانچ کی ہدایت کی تھی.عدالتی کمیشن کی ہدایات کے بعد پی سی آر ڈبلیو نے تحقیقات کے بعد 4 مارچ 2017 کو اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سندھ کے 13 اضلاع میں شہریوں کو فراہم کیے جانے والا پینے کا پانی مضر صحت ہے.پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورس(پی سی آر ڈبلیو آر)نے سکھر، لاڑکانہ، شکارپور، ٹنڈو محمد خان، بدین ، تھرپارکر، حیدرآباد اور کراچی کے 6 اضلاع، جن میں شرقی، غربی، جنوبی، وسطی، ملیر اور کورنگی شامل ہیں، سے پانی کے 300 نمونے حاصل کرکے ان کا ایک تفصیلی بیکٹیریل تجزیہ کیا تھا۔پی سی آر ڈبلیو آر کی جانب سے تحقیقات کے بعد سندھ کے ان اضلاع میں زمین کی سطح پر اور زیر زمین موجود پانی کے بیشتر نمونوں کو انسانی استعمال کے لیے غیر محفوظ قرار دیا گیا تھا۔