دبئی۔القاعدہ کے مقتول سربراہ اسامہ بن لادن کے ممکنہ جانشین حمزہ بن لادن کی ایران میں موجودگی میں انکشاف ہوا ہے ،عرب ٹی وی کو ملنے والی خصوصی تصاویر میں انھیں ایران میں اپنے دو اور بھائیوں محمد اور لادن بن اسامہ کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ان تصاویر میں حمزہ بن لادن کے چہرے کو دیکھا جاسکتا ہے جبکہ اس سے پہلے القاعدہ ان کے چہرے کو چھپاتی رہی ہے اور حالیہ برسوں کے دوران میں ان کی صرف صوتی ریکارڈنگز ہی جاری کرتی رہی ہے۔
یہ تینوں بھائی ایران سے نکلنے کے بعد جد ا ہوگئے تھے ۔ایک تصویر میں تینوں اکٹھے نظر آرہے ہیں اور اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایران سے 2009ء میں ان کے کسی انجانی منزل کی جانب روانہ ہونے سے چندے قبل کی ہے۔لادن بن اسامہ شام میں اپنی والدہ اور بہن ایمن کے پاس چلے گئے تھے۔محمد بن لادن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وزیرستان پر امریکا کے ڈرون حملوں میں تیزی کے بعد مقتول اسامہ نے انھیں یہ ہدایت کی تھی کہ وہ کسی اور شہر میں چلے جائیں اور جب تک ان کے پشاور پہنچنے کا بندوبست نہیں کردیا جاتا ۔
وہ وہیں قیام پذیر رہیں۔حمزہ بن لادن اور ان کی اہلیہ خیریہ صابر 2009ء میں شعبان کے مہینے میں ایران سے کسی اور منزل کے لیے روانہ ہوئے تھے اور تب اسامہ یہ چاہتے تھے کہ وہ ان کے پاس ایبٹ آباد آ جائیں۔انھوں نے عطیی اللہ اللبی کو اس منصوبے پر عمل درآمد کی ذمے داری سونپی تھی۔حمزہ چند ماہ تک وزیرستان میں مقیم رہے تھے اور پھر اسامہ نے انھیں بلوچستان جانے کی ہدایت کی تھی تاکہ وہ وہاں سے سندھ پہنچ سکیں اور وہ تب تک وہاں قیام کریں جب تک ان کی ایبٹ آباد میں محفوظ آمد کو یقینی نہیں بنا دیا جاتا۔
بن لادن نے اپنے بیٹے کو یہ بھی ہدایت کی تھی کہ وہ سفر کے دوران میں خود ان سے ٹیلی فون پر رابطے میں رہے اور پشاور میں اپنے ایک قابل اعتماد ساتھی کے ہاں قیام کرے۔انھوں نے حمزہ کو کسی بھی شناختی کارڈ پر وزیرستان سے فوری طور پر نکل جانے کی ہدایت کی تھی ۔ چنانچہ وہ وہاں سے 2010ء میں کسی اور منزل کی جانب چلے گئے تھے۔بعض دستاویزات کے مطابق القاعدہ کے مقتول سربراہ اپنے بیٹے حمزہ کی ان کے ایران میں قیام کے وقت سے ہی تنظیم کی قیادت کے لیے تربیت کررہے تھے۔
تہران میں ان کے دوست بھی ان کی اسی طور تربیت میں حصہ لے رہے تھے۔ایران میں حمزہ کے اتالیقوں میں عطیی اللہ اللبی ، سیف العدل اور ابو حفص الموریتانی اور القاعدہ کے ترجمان اور اسامہ بن لادن کے داماد ابو غیث شامل تھے۔ ابو غیث نے اپنے برادر نسبتی کو اجتماع میں بولنے کا فن سکھایا تھا جبکہ ابو محمد المصری نے انھیں تاریخ پڑھائی تھی۔ان کی والدہ نے بھی ان کی تعلیم میں اہم کردار ادا کیا تھا اور یہ بتایا تھا کہ انھیں کیا پڑھنا چاہیے۔
حمزہ کو اپنے مقتول والد کے ورثے کا ان کے اطاعت اور فرماں برداری کے کردار کی وجہ سے انتخاب کیا گیا تھا۔ان کی اس کی صفت کا عطیی اللہ نے ایک خط میں بھی ذکرکیا ہے کہ وہ سعد بن لادن کی طرح نہیں تھے۔ سعد ایران سے وزیرستان پہنچنے کے بعد امریکا کے ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔انھوں نے لکھا ہے کہ سعد اپنے جذباتی کردار کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے کیونکہ انھوں نے ہدایات کی پیروی نہیں کی تھی اور انھیں نظرانداز کیا تھا۔اسامہ بن لادن نے ایک خط میں بھی حمزہ کو تنظیم میں اپنا وارث بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ انھوں نے اس خط میں لکھا تھا،یہاں پہنچنے کے بعد تمھیں کلامی جہاد کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔
اس قسم کے جہاد کی صلاحیت کے حامل جہادیوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں ہے۔میں یہ چاہتا ہوں کہ تم ان تجربات سے سیکھو ، جو ہم نے تمھاری غیر موجودگی میں حاصل کیے ہیں۔اس کے لیے وقت درکار ہوگا۔جہاں تک ہتھیاروں کا تعلق ہے تو تم بہت مختصر وقت میں بھی انھیں چلانا سیکھ سکتے ہو۔جتنا جلد ممکن ہو ، وہاں سے نکلنے کے لیے سخت جدوجہد کرو اور جب تک انتظامات نہیں ہوجاتے،اس وقت تک گھر سے باہر نہیں نکلو۔جب بندوبست ہوجائے پھر ہی نکلنا اور ہاں !اپنے ساتھ اپنے بیٹے کو لے کر نہیں چلنا۔
273