568

ہسپانوی خاتون 13 برس سے شیشے کے ’قیدخانے‘ میں رہنے پر مجبور

53سالہ جوانا مونوز نامی خاتون کا تعلق اسپین کے شہر کیدیز سے ہے اور وہ پچھلے 13 سال سے شیشے سے بنے پنجرے میں قید رہنے پر مجبور ہیں۔

جوانا کو کسی جرم کی پاداش میں قید نہیں کیا گیا بلکہ یہ اقدام ان کی جان بچانے کے لیے اٹھایا گیا تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا انہیں کسی دشمن سے بچانے کے لیے حفاظتی قید میں رکھا گیا ہے، بات کچھ ایسی ہی ہے مگر یہ دشمن کوئی انسان نہیں بلکہ بے جان اشیاء ہیں۔

بات دراصل یہ ہے کہ جوانا کو کچھ ایسی عجیب و غریب بیماریاں لاحق ہیں جن کی وجہ سے ان کے لیے کُھلی فضا میں رہنا ممکن نہیں، بہ صورت دیگر وہ موت کا شکار ہوسکتی ہیں۔

اگرجوانا کو گلاس چیمبر سے باہر نکلنا ہو تو پہلے انتہائی سخت احتیاطی تدابیر اختیار کرنی پڑتی ہیں— فوٹو: سوشل میڈیا

وہ چار جان لیوا کیفیات یا امراض؛ کیمیکلز اور برقی رو سے حساسیت، عضلاتی درد اور شدید تھکن کا شکار ہیں اور ان انوکھی کیفیات کی وجہ سے وہ بیرونی ماحول سے کٹنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔

اگرجوانا کو گلاس چیمبر سے باہر نکلنا ہو تو پہلے انتہائی سخت احتیاطی تدابیر اختیار کرنی پڑتی ہیں۔ اسی طرح چیمبر میں داخل ہونے والوں کو بھی پہلے حفاظتی اقدامات پر مشتمل ایک طویل مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے جس میں کیمیائی اجزا سے پاک مصفیٰ مصنوعات سے نہانا اور نامیاتی کپاس سے بنا لباس زیب تن کرنا بھی شامل ہے۔

سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ جوانا کے بچے اپنی ماں کو چُھو بھی نہیں سکتے اور انہیں سال میں صرف دو بار اپنی والدہ سے ہم آغوش ہونے کا موقع ملتا ہے اور اس ملاقات کے لیے بھی انہیں کئی روز پر مشتمل پیشگی تیاری کرنی پڑتی ہے۔

جوانا کے اس اذیت کی ابتداء 29 برس پہلے ہوئی تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی حالت بگڑتی گئی — فوٹو: سوشل میڈیا

جوانا کے لیے اپنے بچوں اور شوہر سے جُدائی اور مسلسل قید انتہائی اذیت کا باعث ہے۔ اس اذیت کی ابتدا 29 سال پہلے ہوئی تھی۔

جوانا کے شوہر نے ان دنوں اپنے گھر کے باغیچے میں کچھ آلو کاشت کیے تھے۔ ایک روز جوانا نے ان پودوں کو چُھوا، اس کے فوراً بعد ان کے ہونٹ اور آنکھوں پر ورم آنے لگا۔

انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا مگر اس وقت تک ان کا پورا جسم متورم ہوچکا تھا اور بقول جوانا وہ کوئی عفریت دکھائی دے رہی تھیں۔

جوانا کا علاج کرنے کے بعد اسپتال سے رخصت کردیا گیا، لیکن اس کے بعد سے جب بھی کوئی کیمیکل ان کے جسم سے چُھو جاتا تو متلی، تھکن، سستی، جلدی خارش، دم گھٹنا اورالرجی سے جُڑی دوسری کیفیات ظاہر ہوجاتیں۔

جوانا کو یاد ہے کہ ان کے شوہر نے آلو کے پودوں پر اس حشرات کش دوا کا چھڑکاؤ کیا تھا جس کا استعمال دو برس قبل ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ ان کے اذیت ناک شب و روز کا ذمہ دار وہی کیمیکل ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کیمیکلز کے لیے جوانا کی حساسیت بڑھتی چلی گئی۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی حساسیت جوانا کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے، زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کیمیکلز سے دور رہے۔ چناں چہ انہی کے مشورے پرجوانا شیشے سے بنے کیبن نما پنجرے میں شب و روز گزارنے پر مجبور ہوگئیں۔

شیشے کے زندان میں رہتے ہوئے ہسپانوی خاتون کو 13 برس گزرچکے ہیں، مگر وہ مایوس نہیں ہوئیں، انہیں امید ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا جب وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ باغیچے کی کھلی فضا میں بچھی ہوئی کرسیوں پر بے خوف و خطر بیٹھ کر قہقہے لگارہی ہوں گی۔

جوانا کا شوہراپنی بدقسمت اہلیہ کے لیے باغیچے میں نامیاتی سبزیاں اگاتا ہے جن پر کسی کیمیکل کا چھڑکائو نہیں کیا جاتا۔ ان کی روزانہ کی خوراک باغیچے سے حاصل کردہ سبزیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ مہینے میں دو بار وہ قابل بھروسا قصابوں سے خریدا گیا نامیاتی گوشت کھاتی ہیں۔ اسی طرح مہینے میں چار سے پانچ بار ان کی غذا میں مچھلی بھی شامل ہوتی ہے۔ وہ صرف سوتی کپڑے زیب تن کرسکتی ہیں۔

سال میں صرف ایک بار جوانا کو طبی معائنے کے لیے شیشے کے قید خانے سے عارضی رہائی نصیب ہوتی ہے۔ طبی معائنے کے لیے انہیں اسپتال لیے جانا بھی کاردارد ہے۔

زندان سے باہر قدم رکھنے سے لے کر اسپتال پہنچنے اور پھر قیدخانے میں واپسی تک کیمیکلز کو جوانا سے دور رکھنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ یوں یہ عارضی رہائی بھی جوانا کی اذیتوں میں مزید اضافہ کردیتی ہے۔

فی الحال میڈیکل سائنس جوانا کو نارمل زندگی گزارنے کے قابل بنانے سے قاصر ہے۔ کیمیکلز سے دوری ہی ان کی زندگی کی ضمانت ہے۔