38

بھٹو کے بے لوث ، غیر سیاسی پوتے کو شاباش

طوفانی سیلابوں کے خونی اور تباہ کن نقوش ہم سب مدتوں یاد رکھیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ سیلابی بربادیوں کو ہم کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔

1300 کے قریب موت کے گھاٹ اُتر گئے اور کتنے ہی ایسے ہیں جن کے لاشے ہنوز تہِ خاک و آب سے برآمد نہیں ہو سکے۔پھنکارتے آبی اژدہوں نے انھیں ایسی وحشت سے نگلاہے کہ ہم تاقیامت گم ہونے والے اِن نفوس کو مل نہ سکیں گے۔یہ ایسی بے بسی ہے کہ ہم اِس پر اشک ہی بہا سکتے ہیں۔

اِن تباہ کن سیلابوں کی گونج ساری دنیا میں سنائی دی گئی ہے۔چند ایک ممالک نے کچھ فیاضی اور انسانی ہمدردی کے تحت ہمارے سیلاب زدگان کی دامے درمے مدد بھی کی ہے۔ہمیں نہیں معلوم کہ غیروں کی ارسال کردہ یہ امداد کتنی اور کہاں تک مستحقین اور سیلاب زدگان تک پہنچ سکے گی۔اِنہی خدشات کے پیشِ نظر وزیر اعظم شہباز شریف نے عالمی آڈٹ اداروں سے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے آنے والے فنڈز کا آڈٹ کرانے کا اعلان کیا ہے۔

مستحقین، مظلوموں اور یتیموں کے لیے مختص امدادی رقوم بھی غصب کرنے میں ہم دُنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ہمارا یہ ناقابلِ رشک ماضی ہے جسے دیکھ کر اس بار غیر ممالک نے بس واجبی سی امداد کی ہے۔ ایک سینئر ترین سرکاری ریٹائرڈ افسر نے ٹویٹ کیا ہے کہ اس قدر تھوڑی امداد کو قبولنا پاکستان کے لیے توہین کا باعث ہونا چاہیے تھا۔ 2010ء کے ہلاکت خیز زلزلے کی بنیاد پر اربوں ڈالر میں آنے والی امداد کو ہمارے کچھ ذمے داروں نے مبینہ طور پر دل کھول کر لُوٹا۔

اِن شرمناک اور انسانیت سوز کہانیوں سے ڈونرز ممالک بے خبر نہیں ہوں گے ۔شاید اسی لیے اِس بار انھوں نے بھرپور فیاضی کا اظہار نہیں کیا ہے۔البتہ شکریہ جمہوریہ ترکیہ اور متحدہ عرب امارات کا جنھوں نے ہماری لغزشوں اور کارستانیوں کے باوجود تازہ ترین مہلک  سیلاب کے ماروں کے لیے امداد سے بھرے کئی جہاز پاکستان بھیجے ہیں۔ اللہ کرے یہ امدادی سامان پوری دیانتداری اور صحت کے ساتھ مستحقین تک پہنچ بھی جائے۔ سیلاب نے متاثرہ علاقوں میں اس قدر مہیب تباہی پھیلائی ہے کہ سیلاب زدگان کو نئے سرے سے زندگی کا آغاز کرنا پڑ رہا ہے۔ اِس پیش منظر میں امدادی سامان میں خیانت کرنا گناہِ کبیرہ بھی ہوگا اور قومی سطح کا ناقابلِ معافی جرم بھی۔

افسوس اور دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اِن سیلابوں کی دامے درمے ، قدمے سخنے دستگیری کرتے ہُوئے ہمارے اہم ترین سیاسی قائدین کہیں بھی نظر نہیں آئے۔ اگر یہ اپنے اپنے انتخابی حلقوں ہی میں سیلاب زدگان کی حوصلہ افزائی کے لیے پائے جاتے تو یہ بھی غنیمت ہوتا۔ ایسے مناظر بھی مگر نظر نہ آئے۔ نہ آصف علی زرداری نظر آئے ، نہ مولانا فضل الرحمن ۔ نہ عمران خان کہیں دکھائی دیے ، نہ ہی نسواری پگڑی پہنے سعد حسین رضوی نظر آئے۔ پاکستان بھر کے عوام نے اِس قابلِ گرفت غیر حاضری کو واضح طور پر محسوس کیا۔ جب یہ شکوہ بڑھا تو آصف زرداری نے فرمایا:’’ میری صحت ٹھیک ہوتی  تو مَیں سیلاب زدگان کے ساتھ موجود ہوتا۔‘‘

اِس عذر کو تسلیم کرلینا چاہیے، مگر عوام سوال پوچھتے ہیں کہ آصف زرداری صاحب کو جب پچھلے دنوں سیاسی مفادات سمیٹنا تھے تو وہ صحت کی خرابی کے باوجود شہباز شریف، چوہدری پرویز الٰہی ، چوہدری شجاعت حسین سے ملتے دکھائی دیتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ رات دیکھتے تھے نہ دن ۔ اور اب غریب عوام کی باری آئی ہے تو وہ زیادہ’’ لاغر’’ اور’’ بیمار‘‘ ہو گئے ہیں۔

عمران خان تو اپنی شاندار صحت کے باوصف کسی سیلاب زدہ خاندان کا ہاتھ تھامتے نظر نہیں آ سکے۔ سوائے ٹیلی تھون اور لا یعنی جلسے کرنے کے ۔ یوں ہم بہتر طور پر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مصیبت زدہ عوام کی دستگیری کرنا ان’’مشاہیر‘‘ کی کتنی ترجیح ہے؟جو شخص اپنے قریبی دوستوں کے جنازوں میں شرکت نہ کر سکے، اُس سے ایسا گلہ بنتا بھی نہیں ہے ۔ نوجوان سعد رضوی ویسے تو بڑے بڑے اور شور انگیز جلوس نکالنے میں شہرت رکھتے ہیں لیکن ان ہلاکت خیز اور تباہ کن سیلابوں میں مصیبت کے ماروں کی دستگیری کرتے یہ صاحب بھی نظر نہیں آئے اور نہ ہی اُن کی مہنگی سفید رنگ کی گاڑیاں لوگوں کو ریسکیو کر سکیں۔

آصف علی زرداری ، عمران خان ، مولانا فضل الرحمن اور سعد رضوی سے تو بہتر ہمیں ذوالفقار علی بھٹو جونیئر لگے ہیں۔32سالہ بھٹو جونیئر شہید ذو الفقار علی بھٹو کا پوتا، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا بھتیجا اور مقتول مرتضیٰ بھٹو کا بیٹا ہے۔ وہ بھٹو خاندان کا قطعی طور پر ایک غیر سیاسی چہرہ اور وارث ہے۔

بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کے بعد بھٹو خاندان کے جن افراد نے بوجوہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی ، اُن میں ایک یہ بھٹو جونیئر بھی ہیں۔ سان فرانسسکو اور ایڈنبرا کی اعلیٰ ترین جامعات سے آرٹ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ بھٹو جونیئر ۔ عالمی شہرت یافتہ شاعرہ اور مصنفہ، فاطمہ بھٹو، اور بھٹو شہید کی چھوٹی صاحبزادی، صنم بھٹو، اگر سیاست سے علیحدہ رہنے کا عملی مظاہرہ نہ کرتے تو شاید اب تک ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کے پاس پہنچ گئے ہوتے ۔ بھٹو جونئیر نے مغربی ممالک میں آرٹسٹ کی زندگی اپنا لی اور اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے ۔ مگر ہم میں سے بہت سے لوگوں کو اُن کی یہ زندگی بھی پسند نہ آئی۔

بھٹو کے وارث پوتے، بھٹو جونیئر، نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ سیاست کرے گا نہ سندھ اور پاکستان کے سیاسی وڈیروں میں خود کو شامل کرے گا۔ وہ پاکستان آتا ہے تو سندھ میں اپنے آبائی علاقے، کراچی اور اپنی خاندانی زمینوں پر اجنبیوں کی طرح گھومتا ہے۔ وہ بلھن ( دریائے سندھ میں پائی جانے والی نایاب اور اندھی ڈولفن مچھلی) کی نسلی بقا کے لیے دوڑ دھوپ کرتا رہتا ہے۔

فارغ اوقات میں شاہ لطیف بھٹائی، سچل سرمست اور شیخ ایاز کے صوفیانہ کلام پر بیخود ہو کر رقص کرتا ہے۔ سندھ میں اچانک سیلابوں نے قیامتِ صغریٰ برپا کر دی ہے تو بھٹو جونیئر اپنے پُر امن آشیانے میں سمٹ کر بیٹھا نہ رہا۔ وہ دیوانہ وار ، برہنہ پا سیلاب میں گھرے اپنے غریب سندھی بھائیوں کے درمیان پایا گیا۔ گھٹنوں گھٹوں تک شلوار کو اُٹھائے ہُوئے۔ کسی گن مین کی چھایا کے بغیر، سادہ اسلوب میں سیلاب زدگان کے درمیان مدد کرتا ہُوا۔

پولی تھین کے مہین لفافوں میں چاولوں کی چند مُٹھیاں رکھ کر لوگوں میں تقسیم کرتے ہُوئے دکھاوے کے لیے نہیں ۔بھٹو جونیئر سرکاری یا نجی ٹی ویوں کی اسکرینوں پر تو نظر نہیں آیا لیکن اُس نے خاموش اور درویش کارکن کی طرح اپنے سیلاب زدہ سندھی بھائی، بہنوں، بچوں کی جس طرح مدد کی ہے، ہماری طرف سے انھیں شاباش۔ انھوں نے سندھ میں سیلاب زدگان کے مصائب دیکھ کر بے حس اور ظالم وڈیرہ شاہی کے خلاف جو وڈیو بیان دیا ہے، اس کی بھی ستائش کی جانی چاہیے۔