ٹوکیو: گرمی کی حالیہ لہر نے اس وقت دنیا کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور جاپانیوں نے حدت کے توڑ کے طور پر ’پانی کی جیلی‘ بنائی ہے جو بوتلوں میں بند ہوکر فروخت کی جارہی ہے اور تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔ واٹرجیلی کو سرد کرے چمچے سے کھایا جارہا ہے یا پھر پھلوں وغیرہ پر رکھ کر اس سے پیاس بھی بجھائی جارہی ہے۔
اسے بنانے والی کمپنی جے آر ایسٹ کراس واٹرکمپنی نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی توقعات سے بھی زیادہ واٹر جیلی مقبول ہوئی اور اندازے سے 3 گنا زائد فروخت ہوئی تاہم بے رنگ اور بے بو جیلی کو دیکھنے پرگمان ہوتا ہے کہ شاید یہ پانی کی طرح بے ذائقہ ہوگی کیونکہ اسے ایکوا جیلی کا نام دیا گیا ہے لیکن حقیقت میں کمپنی نے اسے مختلف ذائقوں اور مٹھاس کے ساتھ تیار کیا ہے۔
ان میں سب سے مشہور ذائقہ ریمیون کا ہے جو سب سے زیادہ فروخت ہورہا ہے۔ 100 ملی لیٹر جیلی میں کیلوریز کی کل تعداد 55 ہے جبکہ 100 ملی لیٹر کوکا کولا میں صرف 37 کیلوری ہوتی ہیں۔ اسے جیلاٹن جیسا گاڑھا روپ دینے کے لیے فریج میں ٹھنڈا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اگرچہ 30 سے 50 برس تک کے افراد اسے رغبت سے کھارہے ہیں لیکن بزرگ جاپانیوں نے بھی واٹر جیلی پسند کی ہے کیونکہ اسے نگلنا بہت آسان ہوتا ہے۔ بالخصوص گرمی میں پیاس بجھانے والی یہ بہترین شے ہے۔ اگرچہ دنیا کے کئی ممالک میں اس کی ضرورت بڑھی ہے لیکن آخر اطلاعات تک یہ صرف جاپان میں ہی دستیاب تھی۔