44

73 سال پرانا پراسرار کیس ڈی این اے نے حل کردیا

سائنسدانوں نے 7 دہائیوں بعد آسٹریلیا کے پراسرار ترین کیس کو حل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

'سومرٹن مین' نامی یہ شخص 73 سال سے آسٹریلیا کا پراسرار ترین کیس تھا کیونکہ اس شخص کی شناخت اب تک نہیں ہوسکی تھی۔

مگر جنوبی آسٹریلیا کے ایک سائنسدان نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے سومرٹن مین کو شناخت کرلیا ہے جو میلبورن سے تعلق رکھنے والا ایک الیکٹریکل انجینئر تھا۔

1948 میں اس شخص کی لاش ایڈیلیڈ کے جنوب میں سومرٹن بیچ پر پائی گئی تھی جس نے بہت اچھا لباس پہنا ہوا تھا اور اس کے بعد سے اس کی شناخت معمہ بنی ہوئی تھی۔

درحقیقت شناخت نہ ہونے کے باعث متعدد خیالات پھیل گئے تھے جیسے یہ ناکام عاشق ہے جبکہ کچھ کا خیال تھا کہ یہ ایک جاسوس ہے۔

چونکہ اس کی شناخت کے لیے کوئی فرد سامنے نہیں آیا تو حکام کے پاس بس کچھ مبہم سراغ تھے، جیسے ایک جیکٹ اور ٹائی جن پر سے ٹیگ کاٹ دیے گئے تھے، ٹرین اور بس کے غیر استعمال شدہ ٹکٹ اور کاغذ کا ٹکڑا جس پر لکھا تھا 'تمام شد'۔

1948 میں لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر کا ماننا تھا کہ یہ شخص زہر خورانی کے باعث ہارٹ فیل ہونے سے مرا تھا اور قتل کے امکان کو مسترد نہیں کیا گیا تھا۔

اب ایڈیلیڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیرک ایبٹ نے کہا ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ یکم دسمبر 1948 کو دریافت ہونے والا یہ شخص کارل چارلس ویب ہے جو میلبورن سے تعلق رکھنے والا 43 سالہ الیکٹریکل انجینئر تھا۔

اس شخص کی لاش برسوں تک شناخت نہ ہونے کی وجہ سے محفوظ رکھی گئی تھی اور 2021 میں اس تدفین ہوئی تھی۔

اب پولیس کی جانب سے سائنسدان کے دعویٰ کی تصدیق کی جائے گی جس کے بعد کوئی باضابطہ بیان جاری کیا جائے گا۔

پروفیسر ڈیرک ایبٹ کی تحقیق میں ان کا ساتھ امریکا سے تعلق رکھنے والی جینیاتی ماہر کولین فٹزپیٹرک نے دیا تھا۔

دونوں نے سومرٹن مین کے بالوں سے حاصل ڈی این اے کا موازنہ ایک ڈی این اے ڈیٹا بیس سے کیا اور اس کی بنیاد پر شجرہ نسب کو ترتیب دیا تاکہ وہ اس فرد کی شناخت کو یقینی بناسکیں۔

پروفیسر ڈیرک ایبٹ نے کہا کہ اس شجرہ نسب میں 4 ہزار افراد تھے اور اس طرح کارل چارلس ویب کی شناخت ہوئی کیونکہ وہی ایسا فرد تھا جس کی موت کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔

انہوں نے کارل چارلس ویب کے زندہ رشتے داروں کا سراغ لگا کر ان کے ڈی این اے سے سومرٹن مین کی شناخت کی تصدیق کی۔

تو میلبورن سے تعلق رکھنے والا شخص ایڈیلیڈ میں کیا کررہا تھا؟ اس سوال پر پروفیسر ڈیرک نے کہا کہ ہمارے پاس شواہد ہیں کہ کارل چارلس کی اپنی بیوی سے علیحدگی ہوگئی تھی جو جنوبی آسٹریلیا منتقل ہوگئی، تو ممکن ہے کہ وہ اس کی تلاش میں یہاں آیا ہو۔

کولین فٹزپیٹرک نے کہا کہ یہ حل کرنے کے لیے زبردست اسرار تھا اور آسٹریلیا کی تاریخ کے دلچسپ ترین کیسز میں سے ایک ہے، یہ صرف سومرٹن مین کی شناخت کا معاملہ نہیں، بلکہ شناخت سے یہ معمہ حل کرنے میں بھی مدد ملے گی کہ کس طرح اور کن حالات میں اس کی موت ہوئی۔

واقعہ تھا کیا؟

وہ جگہ جہاں سے سومرٹن مین کی لاش ملی / فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

یکم دسمبر 1948 کو سومرٹن بیچ میں کچھ لوگوں نے سمندری دیوار کے پاس لاش کو دریافت کیا تھا۔

اس شخص نے سوٹ پہنا ہوا تھا اور اس کی عمر 40 یا 50 سال کے درمیان لگ رہی تھی۔

اس کی جیبوں سے بس اور ٹرین کی ٹکٹیں، چیونگم، 2 کنگھے اور سگریٹ کا پیکٹ ملا مگر کوئی شناختی کارڈ یا رقم موجود نہیں تھی۔

لباس پر موجود ٹیگ کو کاٹ دیا گیا تھا اور ماہرین نے خیال ظاہر کیا تھا کہ اسے زہر دیا گیا ہے۔

انتظامیہ نے چند اور باتیں بھی دریافت کیں جن سے ان کے ذہن الجھ گئے، جیسے ایک سوٹ کیس، کچھ ملبوسات جن کے ٹیگ کاٹ دیے گئے تھے اور ایک کاغذ پر عجیب و غریب الفاظ جس کے بارے میں مانا گیا کہ کوڈ ہے۔

اس مردہ شخص کے کپڑوں سے بھی کاغذ کا ایک ٹکڑا ملا جس میں فارسی زبان میں تمام شد لکھا ہوا تھا۔

سومرٹن مین کی انگلیوں کے نشانات دنیا بھر میں بھیجے گئے مگر کوئی بھی ان کو شناخت نہیں کرسکا اور اس کی باقیات 72 سال تک پولیس کے پاس رہیں جن کو 2021 میں دفن کیا گیا۔

چارلس کارل ویب کون تھا؟

اس کوڈ کا مطب ماہرین اب تک نہیں جان سکے / فوٹو بشکریہ وکی میڈیا

پروفیسر ڈیرک کے مطابق چارلس کارل کی پیدائش 1905 میں ہوئی تھی اور اس کے 6 بہن بھائی تھے۔

اس کی شادی ڈورتھی رابرٹسن سے ہوئی جو ممکنہ طور پر اسے ایڈیلیڈ لائی تھی۔

اب کولین فٹزپیٹرک سومرٹن مین کی موت کا معمہ حل کرنا چاہتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ زہر خورانی کی دریافت کے لیے کیا گیا تھا اور یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ ڈورتھی کے ساتھ کیا ہوا۔