43

پشاور میں انٹرا مدارس سپورٹس چیمپئن شپ کا انعقاد

قیوم سٹیڈیم پشاور میں اپنی نوعیت کی پہلی انٹرا مدارس سپورٹس چیمپئن شپ کا انعقاد کیا گیا جس میں خیبر پختون خوا کے ضم شدہ اضلاع کے تقریبا 800 مدارس کے سینکڑوں طلبا نے حصہ لیا کور کمانڈر پشاور جنرل فیض حمید نے اس میگا ایونٹ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مدارس کے طلبا کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوگی اور دنیا کو پیغام جائیگا کہ مدارس کے حوالے سے جو منفی تاثر قائم کیا گیا ہے وہ درست نہیں‘انہوں نے کہا کہ  ملک میں موجود 35 ہزار سے زائد مدارس میں 20 لاکھ سے زیادہ طلبا دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں تاہم اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ ان مدارس میں عصری تعلیم کو بھی سکھا دیا جائے تاکہ یہ مدارس معاشرے میں ایک پل کا کردار ادا کریں۔چیمپئن شپ کے دوران سات مختلف کھیلوں کے مقابلے رکھے گئے ہیں جن میں قبائلی علاقوں کے متعدد مقامی کھیل بھی شامل ہیں اس سے قبل بھی قبائلی علاقوں کے نوجوانوں کیلئے پشاور سمیت مختلف دیگر شہروں میں اسپورٹس کے مقابلے رکھے گئے تھے جن میں ہزاروں کھلاڑیوں نے شرکت کرکے ثابت کیا کہ وہ کسی سے کم نہیں ہیں اور یہ کہ وہ امن اور ترقی چاہتے ہیں‘تاہم مدارس کے طلبا کیلئے اس چیمپئن شپ کا اہتمام نہ صرف پہلا منفرد تجربہ ہے بلکہ اس کوشش کے قبائلی علاقوں کی معاشرت اور طلبا کی نفسیات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے مدارس کے کردار اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ ادارے ہر برس لاکھوں ان بچیوں اور بچوں کی کفالت اور تعلیم کی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں جن کی اکثریت بوجوہ ایسا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ناین الیون کے حملے کے بعد عالمی طاقتوں نے مدارس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور موقف اختیار کیا کہ ان کے ذریعے انتہا پسندانہ نظریات کو فروغ دیا جارہا ہے حالانکہ یہ پورا سچ نہیں تھا اور شاید اسی ردعمل کا نتیجہ تھا کہ مدارس کو کافی بدنام کیا گیا‘اسی دوران ہزاروں مدارس نے اپنے نصاب میں تبدیلی کرکے عصری علوم اور ٹیکنالوجی کو اس کا حصہ بنایا جس کے باعث بعض مدارس کے سٹوڈنٹس نے سی ایس ایس سمیت ایسے دیگر مشکل امتحانات میں پوزیشنیں بھی حاصل کیں۔خیبرپختونخوا کا سماجی اور معاشرتی ڈھانچہ دوسرے صوبوں سے کافی مختلف اور منفرد ہے اس لیے یہاں موجود مدارس کا مجموعی کردار اس کے باوجود بہت مثبت اور پرامن رہا کہ اس خطے خصوصا قبائلی علاقوں کو برسوں سے انتہا پسند ی کا سامنا رہا۔اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ان مدارس کی ریاستی سرپرستی کی جانی چاہئے اور انہیں ایک مستقل پالیسی کے تحت حالیہ ایونٹ جیسی مذید ایسی سرگرمیوں کے ذریعے ایکدوسرے کے قریب لانا چاہئے۔اس سے جہاں مدارس کے ہزاروں طلبا کی سماجی تربیت ہوگی وہاں یہ لوگ معاشرے کی بہتری اور امن کے قیام میں بھی مثبت کردار ادا کرسکیں گے  یہ ہمارے اپنے بچے ہیں اسلئے ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی پر مبنی رویہ ہمارے ریاستی اور سیاسی اداروں کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے۔

  عقیل یوسفزئی