98

سعودی عرب کا مستقبل کا شہر دنیا کو دنگ کردے گا

سعودی عرب میں اس وقت 500 ارب ڈالرز کی لاگت سے ایک نئے شہر نیوم کی تعمیر پر کام ہورہا ہے۔

اور یہ شہر ایسا ہوگا جو دنیا میں کبھی تعمیر نہیں ہوا ہوگا۔

سعودی عرب کی تاریخ کے سب سے بڑے منصوبے کی چند تجاویز کو شیئر کیا گیا ہے، جہاں روبوٹس کی تعداد انسانوں سے زیادہ ہوگی جبکہ ہولوگرام ٹیچرز جینیاتی طور پر تدوین شدہ طالبعلموں کو تعلیم دیں گے۔

رپورٹ کی تفصیلات دنگ کردینے والی ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کسی سائنس فکشن سے کم نہیں اور یقین کرنا مشکل ہے کہ حقیقی زندگی میں ایسا ہونا ممکن ہوگا۔

فی الحال تو یہ صرف تجاویز ہیں جن پر عمل ہوتا ہے یا نہیں، کچھ کہنا مشکل ہے مگر اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دولت کے ساتھ کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کی چند نمایاں باتیں درج ذیل ہیں۔

کلاﺅڈ سیڈنگ ٹیکنالوجی

نیوم کا تجویز کردہ مقام ساحل پرواقع ہے جس کے ارگرد صحرا ہے، تو وہاں موسم کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے کلاﺅڈ سیڈنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے بارش کے برسنے کو یقینی بنایا جائے گا۔

ہر ایک پر نظر

مستقبل کے اس شہر میں کیمرے، ڈرونز اور چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کا بہت زیادہ استعمال ہوگا، تاکہ شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔

جینیاتی انجنیئرنگ

نیوم میں جینیاتی تدوین کے منصوبے پر بھی کام ہوگا اور جاپان کا سافٹ بینک 'زندگی سے موت تک کے ایک نئے طرز زندگی' کو تشکیل دیا جائے گا، جس کے لیے جینز میں تبدیلی لاکر انسانی مضبوطی اور ذہانت کو بڑھایا جائے گا۔

روبوٹ ہر جگہ

روبوٹ ملازمین یہاں گھر کا ہر کام کریں گے، روبوٹس کے درمیان کیج فائٹس بھی لوگوں کی تفریح کے لیے ہوں گی جبکہ روبوٹ ڈائناسور سے بھرے ایک امیوزمنٹ پارک کو بھی تعمیر کیا جائے گا۔

اڑن ٹیکسیاں

اس خطے کے گورنر شہزادہ فہد بن سلطان نے اس شہر کی تعمیر کے حوالے سے ہونے والے ایک اجلاس میں کہا تھا 'میں کوئی شاہراہ نہیں چاہتا، ہم 2030 تک اڑنے والی گاڑیاں چاہتے ہیں'، ایک اور دستاویز میں لکھا ہے کہ ڈرائیونگ صرف تفریح کے لیے ہوگی، ٹرانسپورٹیشن کے لیے نہیں۔

مصنوعی چاند

اس کی تفصیلات تو واضح نہیں مگر اس شہر کے لیے ایک مصنوعی چاند کی تجویز موجود ہے، جو کہ ممکنہ طور ڈرونز کے فلیٹ یا خلا سے لائیو اسٹریم امیجز کی مدد سے تیار ہوگا۔

خیال رہے کہ اکتوبر 2017 میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بحیرہ احمر کے ساحلی علاقے میں 500 ارب ڈالرز کی لاگت سے نئے شہر کی تعمیر کا اعلان کیا تھا۔

یہ شہر موجودہ حکومتی فریم ورک سے آزاد خودمختار حیثیت میں کام کرے گا اور اس کے لیے حکومت 500 ارب ڈالرز سے زائد سرمایہ خرچ کرے گی، جبکہ مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے خودمختار ویلتھ فنڈ بھی قائم کیا جائے گا۔

یہ سعودی عرب کے ویژن 2030 کا حصہ ہے اور سعودی ولی عہد کے مطابق اس منصوبے کے تحت بحیرہ احمر میں اتنا بڑا پل بھی تعمیر کیا جائے جو کہ اس نئے شہر کو مصر، اردن اور افریقہ کے باقی حصوں سے ملا دے گا اور اس طرح دنیا میں پہلی بار تین ممالک کا پہلا خصوصی زون قائم ہوگا۔

ریاض میں بین الاقوامی کانفرنس کے دوران سعودی ولی عہد نے اس منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ سعودی عرب اب شہروں کے نئے دور کی جانب بڑھ رہا ہے۔

ان کے بقول اس نئے شہر میں توانائی کی ضروریات کلین انرجی سے پوری کی جائیں گی اور وہاں روایتی اقدار کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔

یہ نیا شہر دبئی کی طرح فری زون ہوگا جہاں سرمایہ کاروں کو نہ صرف ٹیرف سے استثنیٰ ملے گا بلکہ اس کے اپنے قوانین و ضوابط ہون گے اور یہ سعودی حکومت سے الگ ہوکر خودمختار کام کرمے گا۔

اس منصوبے کے لیے ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی جس میں شہر کا جو طرز زندگی دکھایا گیا ہے وہ سعودی عرب کے موجودہ کلچر سے بالکل مختلف نظر آتا ہے۔

یعنی خواتین عام ملبوسات میں عوامی مقامات میں جاگنگ کررہی ہیں، مردوں کے ساتھ کام اور موسیقی کے آلات بجا رہی ہیں۔