اسلام آباد۔ ترجمان دفترخارجہ ڈاکٹر محمدفیصل نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکی حکام کے مابین باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے بات چیت جاری ہے ، امید ہے کہ جلد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آجائیں گے ، پاکستان کے وقار اور خودمختاری کا تحفظ اولین ترجیح ہے تاہم امریکہ کی سپلائی لائن کو معطل کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دورہ بھارت پر پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں ہے ، جبکہ پاکستان کو دونوں ممالک کے درمیان متنازعہ دفاعی معاہدوں پر تشویش ہے، بھارت کی جانب سے کنڑول لائن پر بڑھتی ہوئی کشید گی کسی مشکل کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔
گزشتہ سالوں کی نسبت بھارت کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزیوں میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔بھارت کے پاس اگر حافظ سعید کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو پیش کرے ورنہ الزامات لگانا بند کرے، پاکستان ، افغان مہاجرین کی جلد واپسی کا خواہاں ہے ،مشرق وسطی کے متنازعہ معاملات میں پاکستان نے دانشمندانہ فیصلے کیے ہیں۔ پاکستان کا جی ، ایس ، پی ، پلس سٹیٹس 2022ء تک محفوظ ہے۔
پاکستان کے تمام یورپی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات موجود ہیں ، افغانستان اور ایران کے ساتھ بارڈر پر منشیات کی سمگلنگ کو روکنے کیلئے بات چیت جاری ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے آن لائن کے ساتھ انٹرویو میں کیا۔ ترجمان دفترخارجہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال 21اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کے اعلان کے بعد پاکستان اور امریکی کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے کے بعد سے لیکر اب تک دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے پاکستان اور امریکی حکام کے درمیان بات چیت جار ی ہے۔
امریکی صدر کے پالیسی بیان کے بعد دونوں ممالک کی طرف سے تند وتیز بیانات کے ساتھ ساتھ مزاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔اس سلسلے میں امریکی قائم مقام نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے اگست 2017ء کے سے لیکریہ انکا تیسرا دور ہ ہے۔اس کے علاوہ بعض امریکی حکام پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں اور پاکستان حکام نے بھی امریکہ کے مختلف دورے کئے ہیں تاکہ معاملات کا حل تلاش کیا جاسکے ، امریکہ کے ساتھ باہمی تعلقات کے معاملہ میں پاکستان کے تمام ادارے متفق ہیں ، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے وقار اور خودمختاری کا تحفظ دفترخارجہ کی اولین ترجیح ہے ،البتہ کسی بھی سطح پر افغانستان کیلئے نیٹو فورسز کی سپلائی بند کرنے پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی ۔
ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ جی لاک اور اے لاک کے بعد حکومت پاکستان کی طرف سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ،پاک ، بھار ت تعلقات کے حوالے بات کرتے ہوئے ترجمان دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام حل طلب معاملات پر بات چیت کرنے کیلئے تیار ہے البتہ بھارتی قیادت پاکستان کے معاملات کوحل نہیں کرنا چاہتی ، انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل ہماری اولین ترجیح ہے ۔
بھارت کی طرف کنٹرول لائن اور سیز فائر کی خلاف ورزی کی شرح مسلسل بڑھتی جارہی ہے جس کے بارے میں پاکستان کو تشویش ہے ، گزشتہ سالوں کے مقابلے میں بھارت کی طرف سے کنٹرول لائن پر فائرنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جس سے معصوم جانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ،رواں سال میں گزشتہ دوہفتو ں کے دوران بھارت نے 114 مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورز ی کی ہے جبکہ گزشتہ سال 1970مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزی کی گئی ، جبکہ سال 2016 ء میں 320بارسیز فائر کی خلاف کے واقعات ہوئے، بڑھتی ہوئی کشیدگی کسی بڑے مسئلے کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔
پاکستان نے امریکی قیادت کے ساتھ اس معاملے کوبھی اٹھایا ہے جسے امریکہ نے تسلیم کیا ہے، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دورہ بھارت کے معاملے میں ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ پاکستان کو بھارت اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات سے کوئی مسئلہ نہیں ہے تاہم اسرائیل اور بھار ت درمیان متنازعہ دفاعی تعاون کے بارے میں تشویش ہے۔ پاکستان کسی بھی ملک کی خودمختاری اور ذاتی معاملات کے بار ے میں دخل اندازی نہیں کرتا ہے۔
بھارت پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے اور اہم انکی آزادی اور خودمختاری کا احترام کرتے ہیں، حافظ سعید کے بارے بھارتی مطالبے پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر بھارت کے پاس حافظ سعید کے بارے میں کوئی ثبوت ہے تو پیش کرے ااور پاکستان اس کے خلاف کاروائی کرے گا ۔ ترجمان نے کہا کہ گزشتہ کئی سالوں سے بھارت نے ٖصر ف حافظ سعید پر الزامات عائد کئے ہیں ثبوت نہیں دیا ، اگرثبوت نہیں ہے تو واویلا کرنا بے جا ہے۔
افغانستان کے ساتھ باہمی تعلقات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ پاکستان گزشتہ چار دہائیوں سے افغان مہاجرین کو سنبھال رہا ہے اور ہر ممکن انکی مدد اور معاونت کی ہے ، موجود ہ حالا ت میں پاکستان انکی جلد واپسی کا خواہا ں ہے ، اس سلسلے میں پاکستان نے امریکی حکام اور افغان قیادت سے تقاضہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کی جلد واپسی کا بندوبست کیا جائے، کیونکہ افغان مہاجرین کی پاکستان میں موجود گی کی وجہ افغانستان سے دہشتگردی کی کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ اور پشاور یونیورسٹی میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعا ت میں حملہ آور افغانستان میں موجود دہشتگردوں کے ساتھ رابطے میں تھے، جس کے واضع ثبوت پاکستان نے افغان قیادت کے حوالے کرتے ہوئے انکی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔گزشتہ سال چیف آف آرمی جنرل قمرجاوید باجوہ اور سیکرٹری خارجہ نے دورہ افغانستان کے دوران اعلی افغان حکام کے ساتھ مطالبہ کیا گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان سے دہشتگردوں کی آمدورفت سمیت منشیات کی سمگلنگ بھی جاری ہے، جسے روکنے کیلئے افغانستان سے مطالبہ کیا ہے۔اس کے علاوہ ایران کے ساتھ بھی بارڈر سے منشیات کی سمگلنگ کے بارے میں بات چیت جاری ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے مشرق وسطی میں مسلمان ممالک کے درمیان اختلافات میں دانشمندانہ فیصلے کیے ہیں ، پاکستان کسی ایک فریق کی حمایت نہیں کرتا بلکہ چاہتاہے کہ حل طلب معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔ مشرق وسطے میں موجود ایران، سعودی عرب، یمن، یو، اے ، ای، قطر اور دیگرمسلمان ممالک کے ساتھ پاکستان کے خوشگوار تعلقات موجودہیں ۔
جی ، ایس ، پی پلس اور یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ترجمان دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کا جی ، ایس ، پی پلس سٹیٹس سال 2022ء تک محفوظ ہے ، جرمنی ، فرانس ، اٹلی سمیت تمام یورپی ممالک کے ساتھ خواشگوار تعلقات موجود ہیں۔
