94

کچھوے کے بچوں کی بڑی تعداد پلاسٹک سے مرنے لگی

رسبین/پرتھ : سمندروں میں اندھا دھند پھینکا جانے والا پلاسٹک ہر طرح کی پالتو مچھلیوں سے لے کر وھیل تک کو یکساں طور پر تباہ کررہا ہے اور اب ایک مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آسٹریلیا کے سمندروں میں پائے جانے والے جتنے مردہ کچھوے کے بچے ملے ہیں ان کی نصف تعداد پلاسٹک سے ہلاک ہوئی ہے اور بعض کے پیٹ میں پلاسٹک کا کچرا بھرا ہوا تھا۔

اس سے قبل سائنس داں کہہ چکے ہیں کہ پلانکٹن سے لے کر وھیل تک سب ہی پلاسٹک کے شکار ہیں اور ہر سال عالمی سمندروں میں ایک کروڑ ٹن پلاسٹک پھینکا جارہا ہے۔ اس سے قبل کئی مردہ وھیل کے پیٹ سے 12 کلوگرام تک پلاسٹک برآمد ہوا ہے اور اب کچھوے کے ننھے اور معصوم بچے بھی اس کے شکار ہورہے ہیں۔

دوسری جانب سمندری کوڑے اور مچھلیوں کے جال بھی سمندری کچھووں کو تباہ کررہے ہیں اور اس طرح سمندروں کو صاف رکھنے والے خوبصورت کچھوے تیزی سے ہلاک ہورہے ہیں۔ کچھ اقسام کے پلاسٹک جانوروں کے معدے کو نقصان پہنچائے بغیر باہر نکل جاتے ہیں لیکن ان کی بہت بڑی تعداد آنتوں اور معدے میں جمع ہوجاتی ہے جس سے یہ جانور مرجاتے ہیں۔

ہفت روزہ سائنسی جریدے نیچر میں شائع ایک رپورٹ میں کامن ویلتھ سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ آرگنائزیشن (سی ایس آئی آر او) آسٹریلیا سے وابستہ  ڈاکٹر بریٹا ڈینس اور ان کے ساتھیوں نے لگ بھگ 1000 مردہ کچھووں کا جائزہ لے کر کہا ہے کہ کچھوے جتنے چھوٹے ہوں گے پلاسٹک سے مرنے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوجاتا ہے۔

ماہرین نے دیکھا کہ انڈے سے باہر آتے ہی بہت چھوٹے بچے اس سے متاثر ہوتے ہیں اور اس طرح ان کی نصف تعداد مردہ پائی گئی ہے۔ ان سے قدرے بڑے بچوں کی 25 فیصد تعداد موت کی شکار ہوئی جبکہ بڑے کچھووں کی 15 فیصد تعداد موت کے کنارے دیکھی گئی۔

ماہرین نے اندازہ لگایا کہ اگر کچھوے کا ایک بچہ پلاسٹک کے صرف 14 ٹکڑے نگل لے تو وہ اس کی موت کے امکانات 50 فیصد تک پہنچ جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سمندری کچھووں کی 60 فیصد تعداد  یا تو معدوم ہوچکی ہے یا فنا کے دہانے پر ہے۔