150

شاہ زیب قتل کیس ٗ ملزمان کے قابل ضمانت وارنٹ جاری

کراچی۔شاہ زیب قتل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری نے ملزمان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے ان کا نام (ایگزٹ کنٹرول لسٹ) ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔خیال رہے کہ 2012 میں ڈیفنس کے علاقے میں 20 سالہ نوجوان شاہ زیب کو قتل کرنے والے شاہ رخ جتوئی سمیت دیگر ملزمان کو 24 دسمبر کو عدالت کی منظوری کے بعد ضمانت پر جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔شاہ زیب کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ وہ عدالت سے باہر ملزمان کے خاندان سے مصالحت کرچکے ہیں۔

بعد ازاں وکلا ٗ انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر اور کراچی کے دیگر شہریوں نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں کے مقدمے کو سیشن عدالت بھیجنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے۔سماعت کے آغاز درخواست میں گزار کے وکیل بیرسٹر فیصل صدیقی نے کہاکہ انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے واقعہ کو دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا جبکہ سندھ ہائی کورٹ نے اس کے برخلاف فیصلہ دیا اور واقعہ کو ذاتی جھگڑا قرار دیا تھا۔

انہوں نے کہاکہ سندھ ہائی کورٹ نے اہم قانونی نکات کو نظر انداز کیا جبکہ ٹرائل کے دوران ہی مقدمہ کی نوعیت طے ہوچکی تھی اور فیصلہ آگیا تھا۔انہوں نے کہا کہ یہ کوئی عام جھگڑا نہیں تھا، واقعہ سے سوسائٹی میں خوف پھیل گیا تھا جبکہ سندھ ہائی کورٹ واقعہ کو دہشت گردی قرار دے چکی تھی۔چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہاکہ ہمیں قانون کو فالو کرنا ہے سول سوسائٹی کا احترام کرتے ہیں مگر قانون ان سے بالا دست ہے تاہم ہم درخواست گزاروں کے فریق ہونے کی قانونی حیثیت کا بھی جائزہ لیں گے۔سماعت کے دوران ملزم شاہ رخ جتوئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ فریقین کے مابین صلح ہوچکی ہے اب مزید سماعت کی ضرورت نہیں انہوں نے کہا کہ کسی گواہ نے نہیں کہا کہ واقعہ دہشت گردی کا ہے۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سندھ ہائی کورٹ کا دہشت گردی دفعات برقرار رکھنے کا حکم جسٹس سجاد علی شاہ کا تھا اور کسی فریق کو ان پر اعتراض ہے تو انہیں بینچ سے الگ کردیتے ہیں۔جس پر لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں وہ کیس سنیں تاہم اگر عوام کو فریق بننے کی اجازت دیں گے تو بائیس کروڑ لوگوں کو دیکھنا ہوگا کیونکہ فریق بننے کیلئے سب ہی آسکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے آپ پریشان نہ ہوں۔چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا واقعی کسی نے گواہ نے نہیں کہا کہ واقعہ سے دہشت پھیلی؟فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کو طے کرنا ہے کہ دہشت گردی تھی یا نہیں۔چیف جسٹس نے مزید سوال کیا کہ بتائیں درخواست گزار مقدمے میں کیسے فریق کیسے بن سکتے ہیں؟فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر یہ دہشت گردی کا واقعہ نہیں تو سول سوسائٹی فریق نہیں بن سکتی مگر یہ کوئی قتل کا عام واقعہ نہیں بلکہ اس پر کراچی بھر میں مظاہرے بھی ہوے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں قانونی دلائل دیں اور حوالے بتائیں، ہم احتجاج اور مظاہروں پر نہیں قانون کے مطابق فیصلہ دیں گے۔ملزم شاہ رخ جتوئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ تھپڑ مارنے پر جھگڑا بڑھا اور معافی نہ مانگنے پر گولی چل گئی تھی۔انہوں نے کہاکہ رات کا دیڑھ بج رہا تھا وہاں دوسرے لوگ نہیں تھے جن میں خوف پھیلتا، امیر ہونا یا امیر کا بیٹا ہونا تو جرم نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی نے امام بارگاہ یا مسجد پر جاکر حملہ نہیں کیا جہاں دہشت گردی کی دفعات لگا دی جائیں۔چیف جسٹس نے ان کے دلائل سننے کے بعد ریمارکس دیا کہ اس انا نے ہی ہمیں برباد کردیا ہے ، ہمیں کسی بھی معاملے کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ملزم غلام مرتضیٰ لاشاری کے وکیل بار اعوان عدالت میں اپنے دلاعل شروع کرتے ہوئے کہا کہ اگر ٹرائل میں پیش ہونے والے گواہوں کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ واقعہ اس واقعے سے خوف یا دہشت پھیلی تھی۔بابر اعوان نے عدالت میں کہا کہ قتل کبیرہ گناہ ہے، اور کسی بے گناہ کو سزا نہیں ہونی چاہیے ورنہ یہ بھی قتل ہوگا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ دہشت گردی کے کئی کیسز میں صلح منظور کرچکی ہے۔انہوں نے کہا کہ طاہر القادری کیس میں بھی سپریم کورٹ دہشت گردی کے مقدمات میں صلح کا معاملہ بھی طے کرچکی ہے۔بعد ازاں چیف جسٹس نے اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں قابل سماعت قرار دیدیا۔عدالت نے فریقین کو نوٹسز بھی جاری کردیے اور تمام ملزمان کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ سماعت پر ملزمان کی حاضری یقینی بنائی جائے۔