130

بلوچستان بحران ٗ اپوزیشن لیڈرکا وزیراعظم سے ملنے سے انکار

کوئٹہ۔بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرمولانا عبدالواسع نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے مسئلے پر وزیراعظم اور وفاقی حکومت سے کوئی بھی ملاقات نہیں کرینگے مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی اور پیپلز پارٹی نے عمران خان کے دھرنے کے بعد حکومت بچانے کی کوشش کی مگر آج وہی وفاقی حکومت ہمارے قائدین کے خلاف سازشوں کا حصہ بن رہے ہیں جس کی ہم کسی بھی صورت اجازت نہیں دینگے ۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ایک آئینی اور جمہوری حق ہے اور اپوزیشن وحکومتی اراکین نے آئینی اور جمہوری حق استعمال کر تے ہوئے وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتما جمع کی اور آج بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی قوم پرستوں نے وزیراعلیٰ کو اس حالت پر پہنچایا کہ آج اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی اراکین بھی ان کے خلاف میدان عمل میں ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے سابق اسپیکر جان جمالی ، سابق ڈپٹی اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو، عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر انجینئر زمرک خان اچکزئی، سابق وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی ، طاہر محمود ، مفتی گلاب کاکڑ، مولوی معاذ اللہ، عبدالماجد ابڑو سمیت دیگر اراکین کے ہمراہ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن چیمبر میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کیا اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتی واپوزیشن اراکین اس بات پر متفق ہوئے کہ موجودہ کرپٹ حکومت کو ختم کرنے کیلئے ایک مضبوط اور منظم اتحاد کرینگے اور اب موجودہ حکومت کو بچانا اتحادیوں کی بس کی بات نہیں ہے کیونکہ اتحادیوں نے ہی وزیراعلیٰ کے خلاف حکومتی اراکین کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیا ۔

ایک جمہوری اور آئینی عمل ہے کیونکہ اپوزیشن پہلے ہی صوبائی حکومت کے خلاف تھے اور اپوزیشن نے شروع دن سے حکومت کی کمزوریوں کی بات کی سب سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہے اور حکومتی اراکین موجودہ حکومت کے خلاف میدان عمل میں ہے تو اپوزیشن نے بھی ان کا ساتھ دیا ہے قوم پرست کہہ رہے کہ یہ غیر جمہوری عمل ہے مگر ان قو م پرستوں سے کہنا چا ہتا ہوں کہ جب رئیسانی حکومت کو ختم کیا جا رہا تھا اور گورنر راج نافذ کیا تو اس وقت مٹھائیاں تقسیم کی گئی اور جلسوں میں کہا گیا کہ ایک جمہوری حکومت کو غیر جمہوری طریقے سے ختم کیا گیا۔

اب تمام سیاسی جماعتیں ان قوم پرستوں اور حکومت میں شامل اتحادیوں سے پو چھنا چا ہتے ہیں کہ اس وقت ایک جمہوری اور آئینی حکومت کی برطرفی پر مٹھائیاں تقسیم کرنے والے آج کس جمہوریت کی بات کر رہے ہیں موجودہ حکومت نے وفاق سے صوبے کے حقوق حاصل نہیں کئے اور این ایف سی ایوارڈ پر ساڑھے چارسال تک خاموش ہے اور ہر سال 50 ارب روپے لیپس ہوئے اور یہی فنڈز وفاق نے دوسرے منصوبوں کو مکمل کرنے کے لئے منتقل کئے قوم پرستوں نے نفرت کی فضاء قائم کی اور اس نفرت کی فضاء کی خاطر کرپشن کو فروغ دیا تمام حکومتوں میں کرپشن ہو تی رہی مگر اس صوبے میں سب سے زیادہ اور تاریخی کرپشن ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس حکومت سے نجات دلانا ضروری ہے صوبائی وزراء کے پاس اختیارات نہیں تھے یہی اچانک نہیں بلکہ کئی عرصے سے رابطے میں تھے انہوں نے کہا کہ جب عمران خان ڈی چوک پر دھرنا دیا تو وفاقی حکومت مولانا فضل الرحمان کے پاس گئے اور ان سے دھرنا ختم کرانے کی اپیل کی اگر مولانا فضل الرحمان نہ ہو تا تو کیا وفاقی حکومت چل سکتا تھا اور پیپلز پارٹی و عوامی نیشنل پارٹی نے جمہوریت کی بقاء اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے حکومت کا ساتھ دیا لیکن وہ نہیں سمجھے اور آج کہہ رہے کہ صوبائی حکومت کو ختم کرنے میں پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران کو چار سال سے گھر میں قید رکھا ہے کیا دوستوں اور ہمدردوں کیساتھ یہ سلوک کیا جا تا ہے کوئی سازش نہیں ہو رہا اور اب جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم کیوں نکالا جا رہا ہے یا کیوں نکالا گیا یہ بات اب ختم ہونی چا ہئے انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش ہو گی اور جس پر ووٹنگ بھی کی جائے گی بعد میں جو جمہوری حکومت ہو گی ہم ان کا ساتھ دینگے۔

جمعیت علماء اسلام ایک اصولی موقف رکھتی ہے اور جب اپنا فیصلہ کر تی ہے اس موقت سے ہٹتے نہیں گورنر شپ اور وزارتیں ہمارے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتی جب اختر مینگل کی حکومت ختم ہو رہی تھی تو ان کے ساتھیوں نے ساتھ چھوڑ دیا لیکن جمعیت علماء اسلام نے آخری حد تک کا ساتھ دیا اب وزیراعظم یا صدر کا عہدہ بھی دیدیں تو جمعیت علماء اسلام قبول نہیں کرینگے انہوں نے کہا کہ گورنر بلوچستان یا وزیراعلیٰ بلوچستان کا فون آیا تو وزیراعظم سے ملاقات کرنے پر معذرت کی اور ہم کسی بھی صورت وزیراعظم یا وفاقی حکومت سے ملاقات نہیں کرینگے ۔

عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ چار سال تک وزیراعظم نے کوئی بات نہیں کی اور آج وزیراعظم ہاؤس سے فون آیا کہ وزیراعظم بلوچستان میں عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین سے ملنا چا ہتے ہیں مگر ہم ایک اصولی اور جمہوری موقف رکھتے ہیں وزیراعظم سے ملاقات کرنے کا صاف انکار کر دیا باہر کی مداخلت کو کسی صورت برداشت نہیں کرینگے یہاں کے مسائل یہاں کے سیاسی جماعتیں ہی حل کرینگے ۔

سابق وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ موجودہ وزیراعلیٰ کہوں یا سابقہ وزیراعلیٰ کہوں اور انہوں نے زیادہ تر عرصہ صوبے سے باہر گزارا اور صوبے کے معاملات پر کوئی اہمیت نہیں دی ہمارے پاس 40 سے زائد اکثریت ہے اور آج ایک اہم استعفیٰ آنیوالا ہے سابق ڈپٹی اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ 2 سال سے ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ نہیں تھا جو کارروائی ہوئی وہ غیر آئینی ہے اپوزیشن تو پہلے ہی حکومت پر عدم اعتماد کر چکی ہے ۔

25 دسمبر کو سابق وزیرداخلہ نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو آگاہ کیا تھا کہ اب آپ باہر کا دورہ نہ کریں کچھ ہونیوالا ہے انہوں نے کہا کہ پشتونخواملی عوامی پارٹی جو جمہوریت کے دعویدار بنی ہوئی وہ پہلے اپنی پارٹی کے اندر کی جمہوریت پیدا کریں اور دو ضمنی انتخابات اپنے انتخابی نشان کی بجائے کسی اور نشان سے لڑی پشتونخوامیپ نے خود جمہوریت کی پاسداری نہیں کی پارٹی میں جمہوریت لائے پر بات کریں۔