170

پانی کی پائپ لائن ، جس نے پاکستانی گاؤں میں امن قائم کردیا

گلگت بلتستان: پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں میں پانی کی شدید قلت سے آئے دن تنازعات جنم لیتے رہتے تھے لیکن اب کئی کلومیٹر دور سے لائی جانے والی پانی کی ایک پائپ لائن سے یہاں امن کا راج ہوا اور زراعت پھل پھول رہی ہے۔

سکسا نامی گاؤں میں 500 گھرانے آباد ہیں جو زراعت اور غلہ بانی کا کام کرتے ہیں۔ ایک سال پہلے تک یہاں پانی کی شدید قلت تھی جس سے سنگین تنازعات جنم لے رہے تھے۔ ہفتے میں ایک دفعہ صرف نصف گھنٹے کے لیے ایک خاندان کو پانی ملتا تھا جس کی چوری اور خیانت سے مسائل جنم لے رہے تھے۔ اس سے قبل لوگوں کو غسل اور کپڑے دھونے کےلیے وادی سے اتر کر نیچے دریا تک جانا ہوتا تھا۔

اب یہاں سے 6 کلومیٹر دور قراقرم کی پہاڑیوں پر موجود چشموں اور پگھلتی ہوئی برف سے حاصل شدہ پانی کی ذرائع سے یہ پائپ لائن جوڑی گئی ہے جو ڈھلان میں ہونے کی وجہ سے ازخود وہاں سے پانی لاتی ہے۔ یہ پانی نہ صرف تمام آبادی کے لیے پورا ہے بلکہ اس سے زراعت کو بھی فروغ حاصل ہورہا ہے۔  اس طرح پانی کے ایک پائپ نے علاقے میں دیرپا امن قائم کردیا ہے۔

پائپ لائن کو زمین میں تین فٹ گہرائی میں رکھا گیا ہے جو ایک بڑے ٹینک تک جاتی ہے جس میں 30 ہزار لیٹر پانی بھرا جاسکتا ہے۔ ٹینک کا پانی چھوٹی نالیوں سے کھیتوں تک جاتا ہے اور ساتھ ہی چار ہزار افراد کی ضروریات بھی پوری کرتا ہے۔

گلگت بلتستان میں کام کرنے والے ایک غیرسرکاری تنظیم ماؤنٹینز اینڈ گلیشیئر پروٹیکشن آرگنائزیشن (ایم جی پی او) سے وابستہ عائشہ خان کہتی ہیں کہ پورا نظام سال میں لگ بھگ پانچ ارب لیٹر پانی نیچے لاتا ہے جو پورے سال کی ضروریات کے لیے بہت کافی ہے۔

عائشہ خان نے بتایا کہ علاقے میں موسمِ سرما کی مدت کم اور برف بھی کم ہورہی ہے جبکہ موسمِ گرما قدرے طویل اور گرم ہوتا جارہا ہے۔  اس پر بارش بے بھروسہ ہوتی جارہی ہے اور زراعت پر دباؤ کے ساتھ ساتھ غذائی تحفظ (فوڈسیکیورٹی) کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

سکسا میں رہائش پذیر اور گلگت بلتستان سے منتخب ہونے والی مقامی نمائیندہ شیریں اختر کہتی ہیں کہ اب اس علاقے میں امن و سکون ہے۔

اس منصوبے پر ساڑھے 15 کروڑ روپے لاگت آئی ہے جس کی 20 فیصد رقم اور پوری افرادی قوت گاؤں والوں نے فراہم کی اور بقیہ 80 فیصد رقم کوکا کولا کمپنی نے ادا کی ہے۔

یہاں رہائش پذیر خاتون سکینہ نے بتایا کہ چند برس قبل دیہات میں پانی کی فراوانی تھی کیونکہ برف باری سے سردیوں میں خوب پانی آتا تھا۔ لیکن اب سردیوں کی شدت اور برفباری میں کمی ہورہی ہے جس سے زراعت اور معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

سکینہ نے کہا کہ پانی کی بڑے ٹینک کی وجہ سے اب زراعت ممکن ہوگئی ہے اور انہوں نے بھی پہاڑ کی نشیب میں ٹماٹر، بینگن اور بھنڈی اگائی ہے جو پہلے ممکن نہ تھا۔ اس کے علاوہ علاقے میں پھولوں کی افزائش بھی بڑھی ہے۔

پائپ لائن اور ٹٰینک کی تعمیر سے قبل خواتین کے لیے دور دراز علاقوں سے پانی لانا ایک بہت تکلیف دہ عمل تھا اور اس میں گھنٹوں صرف ہوتے تھے۔ اب پانی کی فراہمی سے بچے بھی صاف اور بیماریوں سے دور رہتے ہیں۔ یہاں کے لوگ ضروریات سے زائد سبزیاں اسکردو اور خپلو تک لے جاکر فروخت کررہے ہیں جس سے اضافی آمدنی مل رہی ہے۔

پانی کی آمد سے اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں نے یہاں 10 ہزار سے زائد درخت لگائے ہیں اور اب یہ علاقہ پکنک کا مقام بن چکا ہے۔