157

ورلڈ ٹریڈ سنٹر حملے کے 17 برس مکمل،زخم آج بھی تازہ

واشنگٹن ۔امریکہ کی ریاست نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو جہاز سے اڑانے کے خوفناک حملے کو 17 برس مکمل ہوگئے، تاہم اس سے متاثرہ افراد کے لیے 11 ستمبر 2001 کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکا میں ہونے والے اس خطرناک دہشت گرد حملے میں متاثر ہونے والے افراد کے اہل خانہ، رشتے دار، دوست احباب سمیت حملے میں زندہ بچ جانے والے افراد ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے مقام پر جمع ہوئے اور اپنے پیاروں کو یاد کیا۔

17 برس گزرجانے کے باجود ہر سال گراؤنڈ زیرو پر 11 ستمبر کو مرنے والے افراد کے ناموں کو پکارا جانا، ان کی یاد میں چند منٹ کی خاموشی اختیار کرنا ایک روایت بن چکی ہے۔11 ستمبر کے دن امریکا میں تقاریب کا انعقاد کیا گیا، جہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پنسلوینیا جبکہ پینٹاگون اور نیویارک میں مرنے والوں کے اہل خانہ شریک ہوئے۔

امریکا کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کو 17 سال مکمل ہوگئے تاہم اس کے اثرات عالمی منظر نامے پر اب بھی دکھائی دیتے ہیں اور اس واقعے بعد سے دنیا دہشت گردی کی آگ میں پھنس چکی ہے۔

واضح رہے کہ 11 ستمبر 2001 کا سورج امریکا کے لیے قیامت بن کر ابھرا تھا، جب دہشت گردوں نے ہائی جیک کیے گئے 2 طیارے نیویارک میں موجود ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ایک کے بعد ایک ٹکرا دیئے اور دنیا کی بلند ترین عمارت منٹوں میں زمین بوس کر دی تھی۔اس حملے میں 3 ہزار مقامی اور غیر ملکی باشندے مارے گئے، 6 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے جبکہ 10 ارب ڈالر کا مالی نقصان بھی ہوا تھا۔

اسی روز دو مزید طیارے بھی ہائی جیک کیے گئے، جن میں سے ایک پینٹاگون کے قریب اور دوسرا جنگل میں گر کر تباہ ہوا تھا۔ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے فوری بعد دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک لہر نے جنم لیا تھا،امریکا کی جانب سے ان حملوں کا ذمہ دار عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ٹھہرایا گیا، تاہم ناکافی ثبوتوں کے باوجود اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اسامہ کے میزبان ملک افغانستان پر یلغار کردی، جس کے بعد دہشت گردی کے جن نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

17 برس سے زائد جاری رہنے والی جنگ میں شدت پسندوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں افغان شہری بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ ہزاروں بے گھر ہوگئے، تاہم امریکا کو اس جنگ میں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔امریکا نے اسامہ بن لادن کو اپنا اولین دشمن قرار دیا اور ان کی تلاش میں افغانستان میں بے شمار کارروائیاں کیں اور بالآخر مئی 2011 میں امریکا نے اسامہ بن لادن کو ابیٹ آباد میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔

نائن الیون کے حملے نے امریکا کی پیشگی حملوں کی پالیسی یعنی بش ڈاکٹرائن کو جنم دیا اور افغانستان، شمالی کوریا، عراق اور ایران برائی کا محور قرار پائے اور اسی پالیسی کے تحت امریکا نے ان ممالک میں کارروائیوں کا آغاز کیا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مارے جانے والے 3 ہزار امریکیوں کے بدلے امریکا نے لاکھوں افراد کو اب تک ہلاک کردیا، لاکھوں زخمی اور معذور جبکہ ہزاروں گرفتار ہوئے۔

اس کے علاوہ گوانتاناموبے جیسے بدنام زمانہ عقوبت خانے وجود میں آئے۔امریکا کی جنگجوانہ پالیسی سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا اور یہاں شدت پسندی بڑھی، بالخصوص افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے نہ صرف قبائلی علاقوں میں ٹھکانے بنائے بلکہ شہری علاقوں میں بھی کھل کر موت کا کھیل کھیلا۔تاہم پاکستان نے ان دہشت گردوں کا جرات سے مقابلہ کیا اور آپریشن ضرب عضب، ردالفساد سمیت مختلف آپریشنز سے ان دہشت گردوں کا صفایا کیا۔