104

بلوچستان میں سیاسی بحران سنگین ٗ مزید 2 ارکان مستعفی

کوئٹہ۔بلوچستان حکومت کی مشکلات بڑھ گئیں اور صوبہ میں سیاسی ہلچل مزید تیز ہوگئی صوبائی کابینہ کے 2 وزراء اور مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے 2 اراکین مستعفی ہوگئے اوراپنے استعفے گورنر بلوچستان کو بھجوائے دیئے حکومتی جماعتیں وزیراعلیٰ بلوچستان کو بچانے کے لئے ہرممکن اقدامات اٹھا رہے ہیں تاہم حکومت سے ناراض باغی اراکین اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان رابطے تیز اور وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے سرگرم ہو گئے تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرار داد جمع کرانے کے بعد صوبائی وزراء نے استعفیٰ دینا شروع کردیا صوبائی وزیر لیبر راحت جمالی اور مشیر وزیراعلیٰ عبدالماجد ابڑو عہدوں سے مستعفی ہوگئے اور استعفے گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی کو بھجوادیئے گئے اور دونوں مسلم لیگی اراکین نے باغی اراکین کے گروپ کی حمایت کردی اب تک 3 وزراء اور دو مشیروں نے صوبائی کابینہ سے مستعفی ہوگئے۔

بلوچستان میں سیاسی ہلچل مزید تیز ہوگئی اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی ان کے خلاف میدان عمل میں آگئے اب باغی اراکین کے پاس تعداد زیادہ ہوگئی جبکہ باغی اراکین نے اپوزیشن جماعتوں جمعیت علماء اسلام بلوچستان ‘نیشنل پارٹی ‘ بی این پی عوامی ‘ عوامی نیشنل پارٹی اور آزاد رکن سے رابطے شروع کردیئے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلئے جہاں مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت کی حمایت کرنے والی دو قوم پرست جماعتوں کے رہنما کافی سرگرم عمل ہیں، وہاں اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے مسلم لیگ ن کے باغی ارکان اسمبلی، مسلم لیگ ق اور حزب مخالف کی جماعتوں کے ارکان بھی کافی فعال ہیں۔

گزشتہ دو دنوں کے دوران وزیر اعلی نواب ثناء اللہ کی اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کے 5ارکان اسمبلی وزیر اعلیٰ کی حمایت سے تادم تحریر ہاتھ کھینچ چکے ہیں صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی کو وزیر اعلیٰ برطرف کر چکے ہیں وزیر اعلیٰ کے 2 مشیر جن کا عہدہ صوبائی وزیر کے برابر ہوتا ہے میر امان اللہ نوتیزئی اور شہزادہ احمد علی اپنے عہدوں سے مستعفی ہو چکے ہیں ادھر، مسلم لیگ ن کے دو دیگر ارکان جان محمد جمالی اور سردار صالح بھوتانی بھی باغیوں کے کیمپ میں شامل ہوگئے ہیں مسلم لیگ (ق) کے رہنماء اور بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر عبدلقدوس بزنجو نے دعوی کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے مزید ارکان ان کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں اور عدم اعتماد کی تحریک کو اب 40ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی ہے انہوں نے کہا کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ناراض ارکان اسمبلی سے رابطے جاری ہیں۔

جن کے مثبت نتائج جلد نکلیں گے مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کے ارکان اسمبلی اگرچہ عدم اعتماد کی تحریک کی وجوہات ان پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کو فنڈز کی فراہمی میں کمی، دونوں پارٹیوں کے ارکان کو نظر انداز کرنے اور دیگر وجوہات کو قرار دے رہے ہیں لیکن، حکومتی حلقے عدم اعتماد کی تحریک سینٹ کے انتخابات سے جوڑ رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ وزیر اعلی کو عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹایا گیا تو مارچ میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات میں مسلم لیگ ن مطلوبہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی‘ جس سے سینٹ میں اس پارٹی کو شاید اکثریت حاصل نہ ہو۔