155

ایک لاکھ میگاواٹ بجلی کی صلاحیت پھر بھی لوڈشیڈنگ؟

لاہور۔ چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین نے کہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ پر بات کرنے سے پہلے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔ میری رائے میں اس وقت بجلی سے زیادہ پانی کا مسئلہ سنگین ہے۔ بجلی کی زیادہ سے زیادہ طلب 24000 میگاواٹ اور پیداوار 19 سے 20 ہزار میگاواٹ ہوتی ہے۔ کسی ایک وقت میں 4 سے 5 ہزار میگاواٹ کی کمی ہوتی ہے لیکن یہ کمی کیسے ہوئی؟ اس کی بنیاد یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت بد قسمتی سے ہائیڈرو انرجی کو سامنے نہیں رکھا گیا نہ ہی آبادی کا خیال رکھا گیا۔ مقبوضہ کشمیر پر قبضہ جمانے کے بعد بھارت نے فیروز پور، مادھو پور جتنے ہمارے ڈیم تھے ان پر قبضہ کر لیا۔

پاکستان کی نہریں خشک ہوگئیں اور 12 سال کی کوشش کے بعد ہم نے سندھ طاس معاہدہ کیا اس وقت زیادہ سنگین مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس دونوں وسائل موجود ہیں لیکن ہم نے ان پر اتنی توجہ نہیں دی۔پاکستان میں تازہ پانی کی دستیابی اوسطا 145ملین ایکڑ فٹ ہے جو کافی بھی ہے اور کافی نہیں بھی ہے کیونکہ اگر اس پانی کو صحیح طریقے سے استعمال میں لایا جاتا تو موجودہ صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ 60 سے 70 کی دہائی کے دوران بجلی پانی سے پیدا ہوتی تھی۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ طلب میں 8 سے 10 فیصد اضافہ ہوا جس سے پیداوار انرجی مکس تھرمل کی سمت چلی گئی۔

1976 کے بعد پاکستان میں کوئی بڑا ڈیم نہیں بنایا گیا اور 90 کے عشرے میں ہم نے آئی پی پیز پر انحصار کیا، جن کا دارومدار تیل پر ہوتا ہے تیل باہر سے آتا ہے اور بہت مہنگا ہے اسی وجہ سے آج ملک گردشی قرضوں کے سنگین مسئلہ کا شکار ہے جہاں تک لوڈ شیڈنگ کا تعلق ہے اب بھی ڈیڑھ سے دوہزار میگاواٹ کا شارٹ فال ہے، اگلے 6 سے 8 ہفتوں کے دوران تین میگا پراجیکٹ شروع ہو جائیں گے ان میں نیلم جہلم بھی شامل ہے جس کی پیداواری صلاحیت 969 میگاواٹ ہے تربیلا فور شامل ہے جس کی صلاحیت 1410 میگاواٹ ہے اور گولن بول (چترال) کی صلاحیت 108 میگاواٹ ہے گویا 16 مئی سے 18 اپریل تک ہائیڈل بجلی کی پیداوار میں 2487 میگاواٹ کا اضافہ ہوگا۔بد قسمتی یہ ہے کہ 70 سالوں میں پانی سے صرف 7 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں ہمارا باقی دارومدار تھرمل پر رہا ہے۔

2016 میں یہ فیصلہ ہوا کہ بلوچستان میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ کچھی کینال کا ایک بہت بڑا پراجیکٹ بند پڑا تھا اسے 2008 میں ترک کر دیا گیا تھاہم نے اس حوالے سے ٹیمیں تشکیل دیں اور ان کی 11 ماہ کی کوششوں سے ڈ یرہ بگٹی اور سوئی کے علاقے میں 72 ہزار ایکڑ میں پانی آچکا ہے اور یہ صرف کچھی کینال کا فیز ون مکمل ہوا ہے یہ کام ہم نے 2017 میں مکمل کر لیا ہے فیز 2 مکمل ہونے کے بعد جھل مگسی تک یہ کینال پہنچ جائے گی اسی طرح نیلم جہلم پراجیکٹ بھی کافی مسائل کا شکار تھا۔ انشا اللہ یکم مارچ سے نیلم جہلم کام شروع کردے گا ہمارے تمام انتظامات مکمل ہوچکے ہیں۔ میں بطور چیئرمین 969 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہونے کی گارنٹی دیتا ہوں۔ مارچ سے مئی 2018 تک ہماری بجلی کی ضروریات پوری ہو جائیں گی، 2018 کی گرمیوں سے پہلے پاکستان سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے گی اس کے لئے تقسیم کے نظام کو بہتر بنانا ہو گا۔

ہمارے پاس پانی کا تحفہ موجود ہے۔ پاکستان کے پاس ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے ہمیں اس پر توجہ دینی چاہئے ۔ بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں شمسی توانائی کے منصوبے چلانے کے وسیع امکانات ہیں ۔کالا باغ ڈیم ٹیکنیکل طور پر پاکستان کے لئے بہت مناسب ہے تا ہم اس کے لئے سیاسی اتفاق رائے ضروری ہے تا ہم جب تک کالا باغ ڈیم نہیں بنتاہمارے پاس کچھ مزید آپشنز موجود ہیں ۔ دیا میر بھاشا اور مہمند ڈیم ہیں 2018 میں ہم یہ بنانا شروع کردیں گے