59

ایران جوہری معاہدہ کی درخواست مسترد

واشنگٹن۔امریکہ نے ایران کے خلاف پابندیوں پر یورپی یونین کے اعلی سطح رہنماؤں کی جانب سے یورپی کمپنیوں کو استثنیٰ دئیے جانے کی اپیل کو مسترد کر دیا ہے۔یورپی یونین کے ممالک کے نام اپنے خط میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ امریکہ نے ان کی اپیل کو اس لیے مسترد کردیا کیونکہ وہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دبا ؤڈالنا چاہتا ہے۔انھوں نے کہا کہ استثنیٰ اسی صورت میں دی جا سکتی ہے جب ان سے امریکی قومی سلامتی کو فائدہ پہنچے۔یورپی یونین کو خدشہ ہے ایران کے خلاف واشنگٹن کی نئی پابندیوں کی صورت میں اربوں ڈالر کی تجارت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ وزیر خزانہ کے بھی دستخط والے خط میں لکھا ہے کہ ہم لوگ ایرانی حکومت پر ایسا مالی دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے جو پہلے کبھی نہ ڈالا گیا ہو۔اس میں مزید کہا گیا ہے کہ انتہائی مخصوص صورت حال کے سوا وہ کسی استثنی دینے کی حالت میں نہیں ہے۔

ایران کے جوہری پروگرام کے تعلق سے سنہ 2015 کے بین الاقوامی معاہدے سے خود کو علیحدہ کرنے کے بعد صدر ٹرمپ نے مئی میں ایران کے خلاف سخت پابندیاں عائد کی ہیں۔ایران کے جوہری معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کا مطلب ہے کہ جو پابندیاں معاہدے سے قبل ایران پر لگی ہوئی تھیں وہ پھر سے عائد ہو جائیں گی۔امریکہ کی معاہدے کی مخالفت اسے فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے خلاف کھڑا کر دیتا ہے کیونکہ ان ممالک نے اپنے عہد کی پاسداری کا عہد کیا ہے۔سنہ 2017 میں یورپی یونین نے ایران کو مجموعی طور پر 10.8 ارب یورو کی برآمدات کی تھی جس میں سامان اور خدمات دونوں شامل تھیں جبکہ اسی دوان اس نے 10.1 ارب یورو کی درآمدات کی تھی۔ درآمدات کے معاملے میں یہ سنہ 2016 کے مقابلے میں دگنی تھی۔

اب یورپی بزنس کو اس بات کا خوف ستا رہا ہے کہ اگر وہ ایران کے ساتھ تجارت کرتے ہیں تو امریکہ کے ساتھ ان کی تجارت کو دھچکا لگے گا۔لیکن رواں سال کے اوائل میں یورپی یونین نے قانون سازی کے احیا کی ابتدا کی ہے جس سے ان کے مطابق یورپی کمپنیوں کو ایران کے ساتھ تجارت کرنے کی اجازت ملے گی۔یہ نام نہاد بلاکنگ قانون سنہ 1996 میں کیوبا کے خلاف امریکی پابندیوں کو روکنے کے لیے تیار کیا گیا تھا لیکن اس کا کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔اب اس کا جدید روپ چھ اگست سے قبل پہلی پابندی کے نفاذ کے ساتھ ہی نافذالعمل ہوگا۔