نئی دہلی۔ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے اعتراف کیا کہ کشمیر کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں،ہم کشمیر میں فوجی آپریشن روکنے کے لیے تیار ہیں لیکن اس کی ضمانت کون دے گا کہ ہم پر گولی نہیں چلے گی، میرے لئے کشمیر میں فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے لوگوں کی تعداد کوئی اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ مجھے معلوم ہے یہ چلتا رہے گا،میں اب تک یہ سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں کہ وادی کے نوجوانوں میں یہ غصہ کہاں سے آتا ہے۔
دراصل کشمیری نوجوان پاکستان کے جھانسے میں آکر ہم پر حملے کرتے ہیں۔ بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کو دیئے گئے انٹرویو میں بپن راوت کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جو کشمیری نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دیتے ہوئے اسے آزادی کا راستہ قرار دیتے ہیں دراصل انہیں گمراہ کررہے ہیں۔ میں کشمیری نوجوانوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ غیر ضروری طور پر جذباتی نہ ہوں، وہ کیوں ہتھیار اٹھاتے ہیں، ہم آزادی کے لیے جدو جہد کر نے والوں سے لڑتے رہیں گے، انہیں کبھی آزادی نہیں ملے گی۔
جنرل بپن راوت نے بھارت کی روایتی شیطانی سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے کہا کہ میرے لئے کشمیر میں فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے لوگوں کی تعداد کوئی اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ مجھے معلوم ہے یہ چلتا رہے گا، وادی میں مسلح جدو جہد کرنے والے گروپوں میں نوجوانوں کی شمولیت دیکھی گئی ہے لیکن میں یہ بات بتادوں کہ وہ لاحاصل جدو جہد کررہے ہیں، وہ کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ وہ فوج سے نہیں لڑسکتے۔
میں جانتا ہوں کہ نوجوان بہت غصے میں ہیں لیکن سیکیورٹی فورسز پر پتھرا ؤصحیح نہیں۔بھارتی فوج کے سربراہ نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے بھارتی فوج کو یہ اچھا نہیں لگتا، ہمارے جوان وادی میں ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ عام لوگوں کا جانی نقصان نہ ہو لیکن جب کوئی ہم سے لڑنا چاہتا ہے تو پھر ہم بھی پوری طاقت سے لڑتے ہیں، کشمیریوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ بھارتی سیکیورٹی فورسز سفاک نہیں، انہیں شام کی صورت حال دیکھنی چاہیے جہاں اسی صورت حال میں لوگوں پر توپوں اور فضائی طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔
جنرل بپن راوت نے کشمیر میں مظاہرین پر تشدد کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگوں کی بڑی تعداد سیکیورٹی فورسز کے سرچ آپریشن کو سبوتاژ کرنے کیوں نکل آتی ہے۔ اگر لوگ چاہتے ہیں کہ مسلح جدو جہد کرنے والے نہ مارے جائیں تو وہ انہیں سمجھائیں کہ اپنے ٹھکانوں سے ہتھیاروں کے بغیر باہر نکلیں کوئی قتل نہیں ہوگا۔ ہم اپنی کارروائی روک دیں گے لیکن کسی کو ہماری کارروائیوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا۔
بھارتی فوج پر کیا جانے والا پتھرا انہیں اور بھی جارح بنادیتا ہے۔برہان وانی کی شہادت کو کشمیریوں میں جدوجہد آزادی کی نئی روح پھونکنے کی تصدیق کرتے ہوئے بپن راوت نے کہا کہ جون 2016 تک وادی میں سب ٹھیک تھا لیکن ایک آپریشن نے حالات خراب کردیئے، برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پورا کشمیر سڑکوں پر نکل آیا اور ہم پر پتھر برسانے لگا اور ہماری چوکیوں پر حملے ہونے لگے اور پھر یہ نعرے بھی سنے گئے کہ اب آزادی دور نہیں۔
ہم یہ سب برداشت نہیں کرسکتے تھے ، ہمیں ہر حال میں حالات کو اپنے قابو میں کرنا تھے۔ ہمیں انہیں بتانا تھا کہ آزادی کسی صورت نہیں ملے گی۔بپن روات نے کشمیر میں نوجوانوں کے غم و غصے کو پاکستان کی سازش قرار دیتے ہوئے ہرزا سرائی کی کہ برہان وانی وادی میں بھارتی فوج کے ہاتھوں مارا جانے والا پہلا نوجوان نہیں تھا۔ میں اب تک یہ سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں کہ وادی کے نوجوانوں میں یہ غصہ کہاں سے آتا ہے۔
دراصل کشمیری نوجوان پاکستان کے جھانسے میں آکر ہم پر حملے کرتے ہیں۔بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے اعتراف کیا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کشمیر کے سیاسی نمائندے شہروں، قصبوں اور دیہات میں جاکر لوگوں سے ملیں، لیکن وہ ڈرے ہوئے ہیں کہ کہیں ان پر کوئی حملہ نہ کردے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ سب غلط ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم وادی میں فوجی آپریشن ختم کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اس کی ضمانت کون دے گا کہ ہمارے لوگوں پر کوئی حملہ نہیں ہوگا۔ پولیس اہلکار، سیاسی کارکن اور آبائی علاقوں کو واپس آنے والوں کو گولی نہیں ماری جائے گی۔ اگر ہم پر پتھراؤ اور گولیاں برسائی جائیں گی تو ہمارے پاس بھی جواب دینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔