84

میڈیکل کالجز فیسوں کے کیس سپریم کورٹ منتقل کرنیکا حکم

لاہور۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے پورے پاکستان کے میڈیکل کالجز فیسوں کے کیس سپریم کورٹ ٹرانسفر کرنے کا حکم دیتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ آج کے بعد میڈیکل کالجز کی فیس وصولی کا طریق کار سپریم کورٹ طے کریگی جبکہ چیف جسٹس نے زائد فیس مانگنے پر عدالت کو آگاہ کرنے والی خاتون وکیل کو ٹیلیفون کال کرنے والے فیصل آباد میڈیکل کالج کے وائس چانسلر ڈاکٹر فرید ظفر کو معطل کرتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کر دیا اور تمام نجی میڈیکل کالجز سے سات روز میں کالجز کے اسٹرکچر،لیب،بینک اکاؤنٹس اور دیگر سہولیات سے متعلق تحریری رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر مقررہ مدت میں تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں تو ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔

بدھ کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے نجی میڈیکل کالجز کی جانب سے بھاری فیسوں کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ عدالت کی طلبی پر بعض نجی میڈیکل کالجز کے چیف ایگزیکٹو اور مالکان عدالت میں پیش ہوئے تاہم فاطمہ میموریل میڈیکل کالج اور شریف میڈیکل کالج کے چیف ایگزیکٹو اور مالکان پیش نہ ہوئے۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ فون کرکے پوچھیں کالج کا نظام اس وقت کون چلا رہا ہے اور انہیں طلبی کے نوٹس جاری کریں گے ۔دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مجھے کل بتایا گیا تھا کہ 6لاکھ 42 ہزار روپے فیس وصول کی جارہی ہے لیکن آج معلوم ہوا کہ نجی میڈیکل کالجز 9 لاکھ سے زائد فیس وصول کر رہے ہیں،مجھے آج علم ہوا کہ ہرنجی کالج نے فیسوں اور میرٹ کا اپنا معیار بنا رکھا ہے ۔چیف جسٹس نے راشد لطیف میڈیکل کالج کی عمارت سے متعلق ایل ڈی اے سے وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا کہ رہائشی علاقے میں کس طرح کالج بنایا گیا ہے؟۔چیف جسٹس نے نجی میڈیکل کالجز کے مالکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تو میڈیکل کے طالبعلم ایک ہی جگہ ہسپتال میں مریض دیکھتے تھے۔

کیا آپ اب بسوں میں طالبعلموں کو لے جا کر مریض دکھاتے ہیں، وقت آگیا ہے کہ ہم اس قوم کو کچھ واپس کریں۔چیف جسٹس نے پورے پاکستان کے میڈیکل کالجز کی فیسوں کے کیس سپریم کورٹ ٹرانسفر کرنے کا حکم دیتے ہوئے آبزرویشن دی کہ آج کے بعد میڈیکل کالجز کی فیس وصولی کا طریق کار سپریم کورٹ طے کرے گی اور آئندہ سپریم کورٹ کی جانب سے طے شدہ فیس ہی وصول کی جائے گی۔دوران سماعت خاتون وکیل انجم امین نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر فرید ظفر نے اس کے عزیز کے داخلے کیلئے زیادہ فیس مانگی تھی اورگزشتہ روزڈاکٹرفرید ظفر سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا تھاجس پر مجھے گورنر پنجاب کے بیٹے سمیت بڑے بڑے لوگوں کے فون آئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیسے جرت ہوسکتی ہے کہ گورنر کا بیٹا آپ کو فون کرے ۔عدالت نے کہا کہ قانون میں دیکھیں کہ گورنر پنجاب کو طلب کرنے کی کیا گنجائش ہے۔جس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے سماعت کچھ دیر کے لئے ملتوی کر دی ۔دوبارہ سماعت کا آغاز ہونے پر خاتون وکیل نے بتایا کہ وائس چانسلر ڈاکٹر فرید ظفر نے میسج اور ٹیلفون کالز کیں۔وائس چانسلر ڈاکٹر فرید ظفر نے عدالت کے رو برو موقف اپنایا کہ ٹیلیفون کسی اور کام کے لئے کیے تھے ۔چیف جسٹس نے ڈاکٹر ظفر فرید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا ابھی تک کسی جج سے پالا نہیں پڑا تھا،میرے سامنے جھوٹ بولنے کی جرات کیسے ہوئی؟کس طرح آپ نے عدالت کے احکامات کو نظر انداز کیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے فیصل آبادمیڈیکل کالج کے وائس چانسلر کو معطل کرتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کر دیا ۔خاتون کی طرف سے حراساں کرنے کے خدشے کا اظہار کرنے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی نے حراساں کیا تو سانس کھینچ لوں گا ۔چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دئیے کہ تعلیم کو پیسوں سے مشروط کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، جو کالجز معیار پرپورا نہیں اتریں گے انہیں بند کرا دوں گا،غیرمعیاری کالجزکو ایسے جرمانہ کروں گا کہ مالکان کواپنے گھر بیچنے پڑجائیں گے۔چیف جسٹس نے تمام نجی میڈیکل کالجز کو سات روز میں بیان حلفی کے ساتھ کالجز کے اسٹرکچر،لیب،بینک اکاؤنٹس،سہولیات سے متعلق تحریری رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ مقررہ وقت میں تفصیلات فراہم نہ کرنے والوں کو ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ فاضل بنچ نے مزید سماعت آج جمعرات تک کیلئے ملتوی کر تے ہوئے گورنر پنجاب کو بیٹے کو بھی طلب کر لیا ۔