93

پرویزمشرف کو والدہ کا قاتل سمجھتا ہوں، بلاول بھٹو

کراچی۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ میں پرویزمشرف کو اپنی والدہ کا قاتل سمجھتا ہوں،عدالت نے بے نظیر بھٹو قتل میں اقوام متحدہ کی تفتیش، فون کالز کی ریکارڈنگ کو نظر انداز کیا، پرویزمشرف کوبچانے کے لیے حقائق کوچھپایا جارہا ہے،27 دسمبر 2007 کی شام راولپنڈی میں حملہ کرنیوالے لڑکے کو اپنی والدہ کا قاتل نہیں سمجھتا ۔برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویومیں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پرویزمشرف کوبچانے کے لیے میری والدہ کے قتل کے معاملے میں حقائق کوچھپایا جارہا ہے۔

پرویزمشرف نے بے نظیر بھٹو کو براہِ راست دھمکی دی تھی کہ ان کے تحفظ کی ضمانت تعاون سے مشروط ہوگی ۔ انہوں نے کہا میں ذاتی طور پر پرویز مشرف کو ہی اپنی والدہ کے قتل کا ذمہ دارسمجھتا ہوں ، ہمارے پاس یہ تفصیل نہیں ہے کہ سابق صدرنے کس کو فون پر اس کی ہدایت دی یا کس کو یہ پیغام دیا کہ بے نظیر بھتو کا بندوبست کردو اس لیے وہ لوگوں یا اداروں پر خواہ مخواہ الزام تراشی نہیں کر تا ۔چئیرمین پیپلز پارٹی نے کہا میں اس لڑکے کو اپنی والدہ کا قاتل نہیں سمجھتا جس نے 27 دسمبر 2007 کی شام راولپنڈی میں حملہ کیا تھا، درحقیقت پرویز مشرف نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میری والدہ کو قتل کروایا، اس دہشت گرد نے شاید گولی چلائی ہولیکن پرویز مشرف نے میری والدہ کی سیکیورٹی کو جان بوجھ کر ہٹایا تاکہ انھیں منظر سے ہٹایا جاسکے۔بلاول بھٹوزرداری نے بینظیربھٹو کے قتل کے مقدمے میں نامزد ملزمان کی بریت سے متعلق فیصلے پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ریاست میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ قانون کے مطابق آمر کا احتساب کرسکے۔

عدالت نے اقوام متحدہ کی تفتیش، فون کالزکی ریکارڈنگ اور ڈی این اے سے ملنے والی شہادتوں کو نظر انداز کیا، اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ بے نظیربھٹو قتل کیس کے فیصلے نے انصاف کا مذاق بنا کر رکھ دیا، ہمارا خیال تھا کہ پرویز مشرف کو بچانے کے لیے ان لوگوں کو قربانی کا بکرا بنا کر سزائیں دی جائیں گی جنھوں نے عدالت کے سامنے اعتراف جرم کیا لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔ عدالت نے پہلے ان پولیس افسران کو سزا دی جنھوں نے جائے وقوعہ دھو ڈالا تھا لیکن پھر ان کی ضمانت بھی منظور ہوئی اور اب وہ واپس اپنی ڈیوٹی پر بھی آچکے ہیں۔بے نظیربھٹوکی زندگی میں اپنے سیاسی کردارکے حوالے سے چئیرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ والدہ میرے سیاست میں آنے کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتی تھیں، ہماری ساری توجہ یونیورسٹی میں داخلے پر تھی، میرے آکسفورڈ میں داخلہ ملنے پر وہ بہت خوش تھیں۔ آکسفورڈ کے بعد مجھے مزید اعلی تعلیم حاصل کرنا تھی، پھرمجھے نوکری کرنی تھی، پھر شادی اور خاندان سنبھالنا تھا اور اس سب کے بعد اگر میری خواہش ہوتی تو مجھے پاکستان کے سیاسی میدان میں آنا تھا۔