147

صوبائی وزیر میر ہزار خان بجارانی اہلیہ سمیت پُر اسرار طور پر ہلاک

کراچی: سندھ کے وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما میر ہزار خان بجارانی اہلیہ سمیت اپنی رہائش گاہ میں میں مردہ حالت میں پائے گئے ہیں۔

پولیس ذرائع کے مطابق انہیں اطلاع موصول ہوئی کہ میر ہزار خان بجارانی کے گھر پر لاشیں موجود ہیں جس کے بعد پولیس فوری طور پر ان کے گھر پہنچی اور دروازہ توڑ کر لاشیں نکالیں جن پر گولیوں کے نشانات تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ واقعے کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہوگا، تاہم واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہیں جو ظاہری طور پر خود کشی کا معاملہ نظر آرہا ہے۔

چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے تمام سیاسی سرگرمیاں معطل کرتے ہوئے پارٹی رہنما اور ان اہلیہ کی لاشیں ملنے کے معاملے پر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے رپورٹ طلب کرلی۔

پیپلز پارٹی کے ترجمان کے مطابق صوبائی وزیر کے بیٹے شبیر بجارانی والد اور والدہ کی لاشوں کو قریبی ہسپتال منتقل کرنے اور دیگر انتظامات کا فیصلہ کریں گے۔

میر ہزار خان بجارانی 2013 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 16 کشمور سے سے رکنِ اسمبلی منتخب ہوئے۔

پیپلز پارٹی کے اراکینِ اسمبلی و رہنما بھی کراچی میں میر ہزار خان بجارانی کی رہائش گاہ فوری طور پر پر پہنچے، جن میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال اور دیگر شامل ہیں۔

ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی اور پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا نے کہا صوبائی وزیر کی پُر اسرار ہلاکت پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میر ہزار خان بجارانی نہایت شائستہ انسان تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میر ہزار خان بجارانی کے انتقال کی خبر پر انہیں بہت دکھ ہوا ہے جبکہ ان کی وفات پیپلز پارٹی کے لئے بہت بڑا نقصان ہے۔

آنجہانی رہنا 1990، 1997، 2002 اور 2008 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ 1974، 1977 اور 2013 میں رکنِ صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، علاوہ ازیں وہ 1988 میں سینیٹر بھی رہے۔

میر ہزار خان بجارانی اپنے قبیلے ’بجارانی‘ کے سردار سمجھے جاتے تھے۔

خیال رہے کہ آنجہانی وزیر کا بیٹا شبیر علی بجارانی اس وقت رکن قومی اسمبلی بھی ہے۔


نوٹ: یہ ابتدائی خبر ہے جس میں تفصیلات شامل کی جا رہی ہیں۔ بعض اوقات میڈیا کو ملنے والی ابتدائی معلومات درست نہیں ہوتی ہیں۔ لہٰذا ہماری کوشش ہے کہ ہم متعلقہ اداروں، حکام اور اپنے رپورٹرز سے بات کرکے باوثوق معلومات آپ تک پہنچائیں۔