129

فاٹا اصلاحات بل پر حکومت اپوزیشن ڈیڈلاک برقرار

اسلام آباد ۔فاٹا اصلاحات بل پر حکومت اپوزیشن ڈیڈلاک ختم نہیں ہوسکا، اپوزیشن آج بھی قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کرگئی۔فاٹا کے انضمام یا الگ صوبہ سے متعلق قومی اسمبلی کے اجلاس گرما گرمی ہوئی، خورشید شاہ سمیت اپوزیشن اراکین نے ایوان سے ایک بار پھر واک آؤٹ کیا۔دو دفعہ الحاج شاہ جی گل آفریدی کی جانب سے دو دفعہ کورم کی نشاندہی ،گنتی پر مطلوبہ تعداد پوری نکلی۔ محمود خان اچکزئی کی تقریر کے دوران پی ٹی آئی اراکین کی ہنگامہ آرائی۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ جب تک فاٹا کے لوگوں کو حق نہیں دیا جائے گا ہم اس ایوان میں نہیں بیٹھیں گے۔آئین کے اندر ہوتے ہوئے پارلیمنٹ کی اتھارٹی ختم نہیں ہونے دیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ فاٹا کے لوگوں کو قانون و آئین کا حصہ دیں، ہم انہیں پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں اور ہم انگریز کے کسی بوسیدہ قانون کو ماننے کو تیار نہیں ہیں۔

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ یہ نازک مسئلہ ہے، اس پر افغانستان اعتراض کرے گا، اگر ہم نے غلطی کی تو ہماری افواج یہاں پھنس جائیں گی، اس کے نتیجے میں حالات خراب ہوں گے، آرمی چیف سے ملاقات کے دوران کچھ لوگوں نے کہا کہ ہماری مرض یکے بغیر فیصلے نہ کریں۔

آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے کہا کہ آرٹیکل(ون) میں فاٹا کو پاکستان کا حصہ قرار دیا گیا ہے، یہ بل تو حکومت نے پیش کیا اور حکومت کو اس کا کریڈٹ لینا چاہیے، اگر یہ موقع ضائع کر دیا گیا تو معاملہ کئی سالوں تک لٹک جائے گا، فاٹا کے نوجوان اس انضمام کے حق میں ہیں۔ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضی جاوید عباسی کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹیمپ بنانے کی کوشش کی گئی، اپوزیشن ایسا نہیں کرنے دے گی، فاٹا کے عوام کو آئین پاکستان کے تحت اختیارات دیے جائیں، جب تک ایسا نہیں کیا جاتا اپوزیشن ایوان میں نہیں بیٹھے گی۔

خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم افغانستان اور بھارت کی تھیوری کو ماننے کو تیار نہیں ہیں،ملک میں کسی گورے کالے کا قانون لاگو نہیں ہے،فاٹا کے لوگ اپنا حق مانگ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ پاکستان کے لوگوں کی ہے،جب تک فاٹا کے لوگوں کو حق نہیں دیا جائے گا ہم اس ایوان میں نہیں بیٹھیں گے۔خورشید شاہ نے مزید کہا کہ جب تک فاٹا کے لوگوں کو حق نہیں دیا جائے گا ہم اس ایوان میں نہیں بیٹھیں گے۔

آئین کے اندر ہوتے ہوئے پارلیمنٹ کی اتھارٹی ختم نہیں ہونے دیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ فاٹا کے لوگوں کو قانون و آئین کا حصہ دیں، ہم انہیں پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں اور ہم انگریز کے کسی بوسیدہ قانون کو ماننے کو تیار نہیں ہیں۔سربراہ پی کے میپ محمود اچکزئی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ فاٹاکا معاملہ قبائلی عوام کی مرضی سے طے کریں،صدر پاکستان آج حکم جاری کریں کہ ایف سی آر ختم کردیا۔

فاٹا کو منتخب گورنر دے دیں جو صدر کو جواب دہ ہو۔محمود اچکزئی نے کہا کہ فاٹا میں جو کچھ آپ نے کرنا ہے وہ قبائلی عوام کی مرضی سے کریں، انہوں نے مزید کہا کہ صرف گالیاں نہ دیں ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں، محمود خان اچکزئی نے کہا کہ یہ میرا حق ہے کہ میں پاکستانی شہری ہوں، میں کسی چیز کو سپورٹ کروں یا نہ کروں، کوئی فاٹا کو نہیں سمجھ سکتا،1935ایکٹ میں صوبہ سرحد کا نام تھا اور اسے گورنر کا صوبہ بنایا جا رہا ہے۔

اس ایکٹ کے مطابق سرحدات پر موجود قبائلی علاقہ نہ تو برطانوی انڈیا کا حصہ ہے اور نہ ہی کسی اور کا حصہ ہے، یہ آزاد ہے۔ لارڈویول نے قبائلی جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دو ملکوں کی تقسیم کا آپ کی آزادی پرکوئی اثر نہیں پڑے گا، آپ اپنی مرضی سے جہاں چاہیں شرائط رکھ کر جائیں۔ محمود خان اچکزئی کی تقریر کے دوران پی ٹی آئی اراکین کی ہنگامہ آرائی، محمود خان اچکزئی نے کہا کہ یہ نازک مسئلہ ہے، اس پر افغانستان اعتراض کرے گا، اگر ہم نے غلطی کی تو ہماری افواج یہاں پھنس جائیں گی۔

اس کے نتیجے میں حالات خراب ہوں گے، آرمی چیف سے ملاقات کے دوران کچھ لوگوں نے کہا کہ ہماری مرض یکے بغیر فیصلے نہ کریں، جو کچھ کرنا ہے قبائلی وام کی مرضی سے کریں، صدر پاکستان آج یہ حکم جاری کریں کہ فاٹا سے ایف سی آر ختم کرے، ایک کونسل بنائی جائے، کمیٹی سے کہا جائے کہ نظام بنا کر دیا جائے، اچھی بات یہ ہوتی تو فاٹا کو منتخب گورنر دیا جائے، ہمیں گالیاں نہ دی جائیں، ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں، موسیٰ ؑ کو اللہ نے حکم دیا کہ فرعون سے ادب سے بات کی جائے۔

شیخ رشید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ دو افراد یہاں نہیں جن کی وجہ سے فاٹا کا معاملہ رکا ہوا ہے۔آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے کہا کہ ایوان میں طریقے سے اور دلائل کے ساتھ بات کرنی چاہیے، یہ بحث ایوان میں کئی دفعہ ہو چکی ہے، بار بار اس کو دہرانا مناسب نہیں ہے، ہمیں اس بات پر خوشی ہوئی ہے کہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کیا جا رہا ہے، کمیٹی کی رپورٹ پر حیرانگی بھی ہوئی تھی، آرٹیکل(ون) میں فاٹا کو پاکستان کا حصہ قرار دیا گیا ہے، یہ بل تو حکومت نے پیش کیا اور حکومت کو اس کا کریڈٹ لینا چاہیے۔

اس کو منطقی انجام تک پہنچائیں اور 3فیصد وسائل دیں تا کہ وہ ترقی کر سکیں، اگر یہ موقع ضائع کر دیا گیا تو معاملہ کئی سالوں تک لٹک جائے گا، فاٹا کے نوجوان اس انضمام کے حق میں ہیں ،پچھلی حکومت نے متفقہ طور پر 18ویں ترمیم کی۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت اجلاس چلانا چاہتی ہے، کاشتکاروں کے حوالے سے وفاقی حکومت تیار نہیں ہیں، اس مسئلے پر ہم کل پرسوں بھی بات کر سکتے ہیں، مگر فاٹا کا مسئلہ اہم ہے۔

وزیر قومی تحفظ خوراک سکندر حیات بوسن نے کہا کہ مکئی کی قیمتیں پچھلے سال 6سے بڑھ کر 700تک تھیں، اس سال فصل کم نہیں ہے، سیلاب کی وجہ سے مسائل ہوئے، کسان کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیں گے، مکئی کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے، اس کا بھی کریڈٹ دینا چاہیے، اس قسم یک کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، امپورٹ ڈیوٹی میں کوئی کمی نہیں ہو گی، گنے سے متعلق جو بات ممبران کر رہے ہیں وہ درست ہے اور یہ سو فیصد صوبائی مسئلہ ہے، سندھ حکومت میں جو قیمت مقرر کی جاتی ہے اس سے کم پر خریداری کی جا رہی ہے، اس مسئلے کو ای سی سی میں اٹھایا جائے گا، شوگر ملیں کسانوں کے ساتھ زیادتی کر رہی ہیں جن ملوں کے بقایہ جات کلیئر ہیں وہی برآمد کرسکتی ہیں۔