ڈاکٹر صفدر محمود سچے کھرے پاکستانی، دانشور، ایک عظیم اُستاد، محقق، بے باک تجزیہ نگار، پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے پاسبان اور ماہر تعلیم تھے ، ان کی زندگی کے بے شمار رنگ تھے۔ صلہ رحمی سیکھنی ہو تو کوئی ان سے سیکھے۔ سادگی خلوص اور محبت کا پیکر ، خود نمائی اور غرور و تکبر سے کوسوں دور۔ کبھی کسی نیکی کا اظہار نہ کیا، وہ نیکی کے مواقع کی تلاش میں رہتے۔
ان کی زندگی کے آخری تین برس میں اُن کے بہت قریب رہا۔ وہ زندگی بھر ہزاروں بے سہارا طلبا و طالبات کی اعلیٰ تعلیم کے انتظامات کرتے رہے۔ جیلوں سے سیکڑوں قیدیوں کے رہائی کے معاملات نبھاتے رہے۔ انھیں رہائی دلوائی، بے شمار بیوگان کا سہارا بنے رہے ، وہ ضرورت مندوں کا بینک تھے۔ قرآن پاک کے نسخے، احادیث اور سیرت کی کتب، تفاسیر اور دینی کتابیں اپنے پلے سے خرید کر تقسیم فرما دیتے تاکہ علم کی روشنی پھیلتی رہے۔
وہ ایک ہاتھ سے صدقہ خیرات کرتے تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہوتی۔ انھیں روحانیت اور تصوف سے خاص لگاؤ تھا۔ وہ ایک بے چین روح تھے، انھیں پاکستان کی ہر لمحہ فکر رہتی، ہمیشہ بے چین رہتے، مجھ سے اکثر کہا کرتے کہ’’ علامہ صاحب! خدا تک پہنچنے کا آسان ترین طریقہ مخلوقِ خدا کی خدمت ہے۔ اس سے آسانی اور سہل کوئی ذریعہ نہیں۔ یہی شارٹ کٹ ہے۔ استغفار اور درود شریف کی اکثریت ہر مسئلے کا حل ہے۔ اللہ کے ذکر میں ہی دلوں کا اطمینان اور سکون ہے۔‘‘
ڈاکٹر صفدر محمود نے ایک دن کہا، علامہ صاحب عمرہ کی سعادت اکٹھے حاصل کرتے ہیں، میں نے عرض کیا زہے نصیب، دو سعادتیں اکٹھی حاصل ہوجائیں گی۔ عمرہ بھی ادا ہوجائے گا اور آپ کی خدمت کا موقع بھی ملے گا۔ مسکرانے لگے پروگرام تقریباً بن چکا تھا کہ کورونا کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دنیا کو خوف و ہراس میں مبتلا کر کے نظامِ زندگی مفلوج کردیا گیا۔ آمدورفت کے ذرایع بند ہوگئے۔ عمرہ اور حج پر پابندی لگادی گئی۔ لوگ گھروں میں قید ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا اللہ کو منظور ہوا تو ’’ کورونا ‘‘ کے بعد اکٹھے عمرہ کی سعادت حاصل کریں گے۔
ایک دن ان کا صوتی پیغام موصول ہوا کہ چند دن بیمار رہنے اور اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد گھر آ گیا ہوں۔ میں عیادت کے لیے گیا، کافی کم زور لگ رہے تھے، لیکن مطمئن اور مسرور، کہنے لگے جلد لکھنے پڑھنے کے قابل ہوجاؤں گا۔ ان کے سعادت مند اور فرماں بردار بیٹوں اور اہل خانہ نے ان کی ہر طرح سے خدمت کی، خیال رکھا۔ سچی بات ہے جس طرح کے بیٹے اور بیٹیاں ڈاکٹر صاحب کی ہیں اگر ہر گھر میں ایسی اولاد ہو تو پاکستان جنت کا نمونہ بن جائے۔
ان کے بچوں نے خدمت کا حق ادا کر دیا۔ ہر حوالے سے اُن کا خیال رکھا لیکن ڈاکٹر صاحب باوجود بہترین علاج اور دیکھ بھال کے صحت یاب نہ ہو پائے تو انھیں علاج کے لیے امریکا پہنچایا گیا۔ وہاں وہ کئی ماہ تک بہترین اسپتال اور اعلیٰ ڈاکٹروں کے زیر نگرانی رہے۔
فون پر ان سے اور ان کے بچوں سے مسلسل رابطہ رہا۔ تین برسوں میں ان کے جتنے صوتی پیغام موصول ہوئے اگر انھیں الفاظ کے قالب میں ڈھالا جائے تو ایک اچھی خاصی کتاب بن سکتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے صاحبزادوں خرم محمود اور عمر محمود نے دنیا کے بہترین ڈاکٹروں سے علاج کرایا۔ اعلیٰ طبی سہولتیں فراہم کیں، لیکن جب دنیا سے دانہ پانی اُٹھ گیا ہو اور سانسوں کی گنتی مکمل ہوجائے تو پھر اللہ کی رضا کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے۔
13 ستمبر 2021کو ڈاکٹر صفدر محمود صاحب ہمیں چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی کے سامنے پیش ہو گئے لیکن وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں، اپنے افکار و نظریات، اپنے رفاہی کاموں اور علمی ادبی شہ پاروں کی صورت ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وہ ہر سچے اور محب وطن پاکستانی کے دل میں بستے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی یادوں کا سلسلہ بہت طویل اور خوب صورت ہے۔
ایک دن فرمانے لگے آج سے 45 سال پہلے ایک کتاب ’’ بانیانِ پاکستان ‘‘ لکھی تھی۔ آج پھر قوم کو اس کی ضرورت ہے ، میں نے کہا شایع ہوجائے گی۔ چند دنوں میں کتاب شایع ہوگئی۔
پھر روحانیت اور تصوف کے حوالے سے بہت ہی خوب صورت تحریروں پر مشتمل کتاب ’’بصیرت‘‘ کے نام سے شایع کی، جو تصوف کے دل دادہ لوگوں کے لیے خاص تحفہ ہے۔ قائداعظم، نظریہ پاکستان، علامہ اقبال اور قومی ترانے کے حوالے سے مخالفین کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی کتاب ’’سچ تو یہ ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب کو بہت پسند تھی۔ ایک دن فرمایا میری ساری کتب ایک طرف اور ’’سچ تو یہ ہے‘‘ ایک طرف، یہ سب سے بڑھ کر اور اہم ہے۔
’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں ڈاکٹر صاحب مرحوم و مغفور سے ان تمام الزامات، غلط فہمیوں اور ابہام کا بڑی تحقیق کے بعد مدلل اور ٹھوس حوالوں سے رد کر دیا ہے جو بد باطن لوگ بانیانِ پاکستان اور تحریک پاکستان کے اکابرین پر لگاتے آئے تھے۔ یہ کتاب تقریباً پاکستان کی ہر لائبریری تک پہنچی اور پسند کی گئی۔
ڈاکٹر صاحب کی وفات پر پاکستان کے تمام بڑے کالم نگاروں نے ان پر بھرپور کالم تحریر کیے۔ ان لکھنے والوں میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان، مجیب الرحمٰن شامی، اوریا مقبول جان، ڈاکٹر حسین پراچہ، قیوم نظامی، سعید آسی، محمد فاروق عزمی، ارشاد احمد عارف، ریاض سید، عثمان کسانہ، عامر خاکوانی، سجاد میر جیسے بڑے نام شامل ہیں۔
ڈاکٹر صفدر محمود جب امریکا میں زیر علاج تھے تو اکثر مجھے کہتے بانی پاکستان اور اکابرین پاکستان کے بارے کچھ جاننا ہو تو ڈاکٹر زاہد منیر عامر سے رابطہ کریں۔
ڈاکٹر صاحب کی پہلی برسی پر حکومت وقت سے مطالبہ ہے کہ ڈاکٹر صفدر محمود پاکستان کے واحد ماہر تعلیم تھے، جنہیں UNO تک رسائی تھی ، وہ وہاں وائس چیئرمین منتخب ہوئے۔ وہ قائداعظم، علامہ اقبال، ڈاکٹر عبدالقدیر کے بعد پاکستان کی بڑی شخصیت تھے۔ ان کے نام سے پاکستان میں ایک یونیورسٹی قائم ہونی چاہیے۔ یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا جائے اور 50 روپے کا ایک یادگاری سکہ بھی ڈاکٹر صفدر محمود کے نام سے جاری کیا جائے۔
زندہ اور با ضمیر اپنے قومی ہیرو اور رہنماؤں کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ ہمیں ڈاکٹر صاحب کی پاکستان، پاکستانی عوام، علم و ادب اور تحقیق کے شعبے میں خدمات پر بجا طور پر فخر ہے۔ ڈاکٹر صاحب ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اللہ کریم جنت الفردوس میں ان کے درجات بلند فرمائے۔(آمین)