243

پاک بھارت تجارت جمیل مرغز

پاکستان اور ہندوستان خیر سے 75سال کے ہوچکے ہیں اور دونوں اس سال اپنا ڈائمنڈ جوبلی سال منا رہے ہیں۔اب ان دونوں ملکوں کو سوچنا چاہیے کہ انھوں نے اس پورے عرصے میں‘باہمی دشمنی سے کیا حاصل کیا ہے؟امن پسند اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ دونوں ملک اگلی نسل کے لیے کیا ترکہ چھوڑنا چاہتے ہیں؟اس وقت جب شدید سیلابوں اور خراب معاشی صورت حال کی وجہ سے پاکستان تقریباً حالت نزع میں ہے۔

ساری دنیا سے امداد کی اپیل کی جا رہی ہے ‘اس وقت بھی ان کو دشمنی نباہنے کی فکر ہے ‘اس وقت لوگ ریلیف کے مستحق ہیں‘وہ پہلے ہی سبزیوں اور دیگر اشیائے ضروریہ کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں سے تنگ ہیں‘اگر اس وقت ہندوستان سے سبزیوں کی درآمد کی اجازت دی جائے تو عام آدمی کو بہت فائدہ ہوگا۔ہماری حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ ہماری پالیسیاں اب’’ جیو اسٹرٹیجک‘‘ کے بجائے ’’جیو اکنامکس‘‘ کی بنیاد پر ہوں گی‘لیکن اس کے باوجود وہ ہندوستان سے سستی اشیاء منگوانے کے خلاف ہے۔

حالانکہ مفتاح اسماعیل نے امکان ظاہر کیا تھا کہ شاید ہمیں ہندوستان سے سبزیاں منگوانی پڑیں‘ادھر ہماری حکومت افغانستان اور ایران سے ٹماٹر اور پیاز کی درآمد کو ٹیکسوں وغیرہ سے چھوٹ دے رہی ہے‘لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان کی زراعت تو پہلے ہی تباہ حال ہے، وہاں سے کتنا کچھ آسکتا ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات شاید لوگوں کے علم میں ہوگی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان براستہ دبئی کافی عرصے سے تجارت ہو رہی ہے۔

اس لیے اگر پیاز ٹماٹر وغیرہ ہندوستان سے بذریعہ دبئی منگایا جائے تو پھر حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور دائیں بازو کے سیاسی و مذہبی طبقے اعتراض نہیں کریں گے۔ اب یہ بھی حقیقت ہے کہ دبئی کے راستے کوئی چیز منگوانے پر بہت زیادہ خرچہ آتا ہے اور وہ اشیاء عوام کو مہنگی ملے گی۔

یہ عجیب ریاستی پالیسی ہے کہ لاہور سے واہگہ تیس میل کے فاصلے پر ہونے کے باوجود‘وہاں سے کوئی چیز منگوانے کے بجائے ہزاروں میل دور براستہ دبئی اشیاء منگوانے میں کیا تک ہے؟اسی طرح قصور، بہاولنگر، سیالکوٹ اور سندھ میںکھوکھرا پار سرحد سے زرعی اجناس کم خرچ پر منگوائی جاسکتی ہیں۔اگر دریاؤں کو تجارت کے لیے استعمال کیا جائے تو دریائے سندھ کے ذریعے پورے خیبر پختونخوا تک زرعی اجناس انتہائی کم خرچ پر باآسانی پہنچ سکتی ہیں۔

کیا اس بے تکی حرکت سے کشمیر ہمیں مل جائے گایا ہماری قومی سلامتی کو تحفظ مل جائے گا؟۔عجیب قوم ہے ‘بھارتی اشیاء اسمگل ہوکر ملک میں ہر جگہ استعمال ہورہی ہے لیکن چونکہ اس پر پابندی ہے۔

اس لیے حکومت پاکستان اربوں روپے کی ٹیکسوں سے محروم ہے ‘پاکستان کے تاجر بھی اس تجارت سے فائدے میں رہیں گے ‘کیونکہ بھارت کی بہت بڑی مارکیٹ ہے ‘بہت سے چھوٹے ممالک مثلاً بنگلہ دیش‘نیپال اور سری لنکا وغیرہ نے بھارت کے ساتھ سودمند ‘تجارتی اور اقتصادی تعلقات قائم کیے ہیں‘وہ بھارت کی منڈی تک رسائی حاصل کرکے اپنی برآمدات بڑھا رہے ہیں۔

بین لاقوامی NGOsنے حکومت سے براستہ ہندوستان امدادی اشیاء لانے کی اجازت مانگی ہے لیکن ابھی تک حکومت نے ان کو بھی جواب نہیں دیا‘ واہ رے ہماری پالیسی؟ کافی عرصہ قبل سٹیل مل دیکھنے کے گئے تو وہاں ایک صاحب بتا رہے تھے کہ ہم آج کل پچاس ہزار روپے ٹن کوئلہ جنوبی افریقہ سے درآمد کر رہے ہیںجس پر جہازوں کا کرایہ بھی بہت زیادہ آتا ہے ‘اس کے بجائے ہندروستان سے اچھا کوئلہ ہمیں بہت ہی ارزاں قیمت پر ملتا ہے لیکن ہماری پالیسی؟

ترقی یافتہ ممالک اور خصوصاً چین کی ترقی کا راز تجارت اور خارجہ پالیسی کو الگ الگ رکھنے میں ہے ‘وہ اپنے بدترین دشمن کے ساتھ بھی تجارتی تعلق رکھتا ہے اور آج‘جاپان سے لے کر یورپ اور امریکا تک دنیا بھر کی منڈیاں چینی اشیاء سے بھری ہوئی ہیں‘اسی لیے تو ڈونلڈ ٹرمپ شکایت کرتا تھا کہ چین امریکا کی منڈیوں سے اربوں ڈالر کماتا ہے لیکن ہمارے دشمن شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے منع نہیں کرتا ‘ ہندوستان بھی حالیہ سرحدی جھڑپوں کے باوجود‘ چین کے ساتھ تجارت کرکے اربوں ڈالر کما رہا ہے۔

اب ذرا پاکستان کی معاشی پالیسیوںکا جائزہ بھی لیتے ہیں‘حالانکہ بقول کسے‘ اس ملک خدادادکو ترقی کرنے کے بہت سے مواقع عطا کیے گئے ہیں‘ پاکستان کی جغرافیائی خوش قسمتی ہے کہ ہزاروں سال سے‘ اس سرزمین کے راستے اوردرے‘جنوبی ایشیاء اور چین سے یورپ و سینٹرل ایشیائی ریاستوں کے درمیان تجارتی راستوں کی حیثیت سے استعمال ہوتے رہے ہیں‘ پشاور کا قصہ خوانی بازاراور قدیم شاہراہ ریشم اس دور کی یادگار ہیں۔

آج پھر ایک موقعہ ہے کہ ہم اس راستے کو استعمال کرکے اپنی معاشی اور سیاسی و سماجی حالات بہتر کر سکتے ہیں‘اس روٹ کے کھلنے سے خاص کر ڈیور نڈ لائن کے آرپار پختونوں کو بے شمارفوائد حاصل ہوں گے ‘اس شاہراہ کو استعمال میں لانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری خارجہ پالیسی ہے ‘اگر ایک طرف ہم چین کو گوادر کے راستے دنیا تک رسائی دے رہے ہیں۔

اور اس طرح شمال سے جنوب کے راستے سے فائدہ اٹھانے کا سوچ رہے ہیں تو اسی طرح مغرب سے مشرق تک کے راستے سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے‘ انڈیا اور افغانستان کو راہداری کی سہولت نہ دے کر اپنا نقصان کر رہے ہیں‘ مغرب سے مشرق جانے والی شاہراہ کو نہ کھولنے سے مستقبل میں پاکستان کی اہمیت ختم ہوجائے گی۔

عالمی بینک کے مطابق اس خطے کے ملکوں کے اندر‘جہاں دنیا کی ایک چوتھائی آبادی رہتی ہے‘ جنوبی ایشیاء کی کل تجارت کا حجم صرف 5فی صد ہے ‘اس کے مقابلے میں ASEAN(جنوبی ایشیاء کے ممالک کی تنظیم ) کے ممبر ممالک کے درمیان کل تجارت کا حجم 25فی صد ہے ‘یہ کوئی عجیب امر نہیں ہے ‘جنوبی ایشیاء کے ممالک اور خاص کر ہندوستان اور پاکستان میں ابتداء ہی سے تنازعات اور عدم اعتماد کی فضاء موجود ہے ’جو اس خطے کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔

کابل کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کی ہندوستان کو برآمدات میں 227فی صد اضافہ ہوا ہے لیکن ہندوستان سے افغانستان آنے والی درآمدات میں صرف 47فی صد اضافہ ہوا ہے ‘ہندوستان سے افغانستان کو د رآمدات پر رکاوٹوں کا مطلب ہے کہ افغانستان سے براستہ واہگہ سامان لانے والے ٹرکوں کو سرحد سے واپس خالی آنا ہوگا‘ ہندوستان کو پاکستان کے راستے اپنا سامان افغانستان لے جانے پر پابندی ہے‘ ہندوستان کے تاجروں کو افغانستان تک سامان پہنچانے پر زیادہ اخراجات کرنے پڑتے ہیں۔

افغانستان اور ہندوستان نے ہوائی راستہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ اس کے علاوہ ہندوستان نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے راستے گندم کی پہلی کھیپ افغانستان بھیج دی تھی ‘ افغانستان کو ایرانی برآمدات کا حجم 118فی صد بڑھ گیا ہے۔

اگر پاکستان انڈیا کو واہگہ کے راستے افغانستان اور سینٹرل ایشیا تک راستہ نہیں دے گا تو خطرہ ہے کہ پاکستان بھی CPECکے راستے سینٹرل ایشیاء تک رسائی حاصل نہیں کر سکے گا‘کیونکہ یہ راستہ افغانستان سے ہو کر گزرتا ہے ‘ جب تک دونوں ملکوں میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوجاتا‘پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کے اربوں ڈالر کے رقم سے محروم رہے گا ‘جوCPECکی قرضوں کی واپسی کے لیے بہت ضروری ہیں۔

ہمارے راستوں کو استعمال کرکے ‘بھارت کے فائد ے ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ ہوں گے اگر اسے یہ فائدے حاصل کرنے کی سہولت مل جائے ‘تو وہ کسی بھی طرح کی کشیدگی پیدا ہونے سے قبل اسے ختم کرنے کی طرف توجہ دے گا اور ایسی صورتحال پیدا کرنے سے گریز کرے گا‘جس میں وہ بڑے فوائد سے محروم ہوجائے ‘شمال مغرب میں تجارتی رسائی کے دیگر ذرایع پیدا کرنے سے ہم بھارت کو زیادہ عرصے تک نہیں روک سکیں گے۔

ایک دوسرے کو سہولتیںپہنچانے کی ہماری طاقت ‘ہمیشہ باقی نہیں رہ سکتی ‘ویسے بھارت ہمارے لیے شجر ممنوعہ بھی نہیں ہے‘تاپی(TAPI)کی مجوزہ گیس پائپ لائن بھی توتاجکستان سے افغانستان اور پاکستان سے گزر کر وہاں جائے گی‘کشمیر سمیت دیگر تنازعات جنگ اور جہاد سے تو حل نہیں ہوسکے‘اب امن اور تجارت کی حکمت عملی شاید کارآمد ثابت ہو۔