181

اسلام آباد دھرنا: سپریم کورٹ کی مظاہرین کی سپلائی لائن بند کرنے کی ہدایت

سپریم کورٹ میں اسلام آباد دھرنے سے متعلق وفاقی وزارتِ دفاع اور وفاقی وزارتِ داخلہ کی رپورٹس عدالت میں پیش کردی گئیں تاہم عدالت نے اٹارنی جنرل کو دھرنے والوں کی کھانے پینے کی سپلائی لائن منقطع کرنے اور ان کے بینک اکاؤنٹس منجمند کرنے کی ہدایات جاری کردیں۔

جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے وفاقی دارالحکومت میں فیض آباد دھرنے پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے لیے گئے نوٹس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں وفاقی وزارت دفاع اور وفاقی وزارت داخلہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئیں جس پر جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے رپورٹس کا جائزہ لیا؟

جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کو دھرنے سے متعلق قبل از وقت آگاہ کردیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ میڈیا دھرنے پر موجود لوگوں کو اتنی کوریج کیوں دے رہا ہے اور اس وقت پاکستان ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کہا ہے۔

انہیں سوال کیا کہ دھرنے والوں کا خرچ کون اٹھا رہا ہے اور حکومت دھرنے والوں کے اخراجات کی تحقیقات کیوں نہیں کر رہی؟

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل پاکستان سے سوال کیا کہ کل کو کوئی دشمن آکر سڑکوں پر قبضہ کرلے تو کیا حکومت ان سے مذاکرات کرے گی؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تصادم کا خطرہ ہونے کی وجہ سے حکومت احتیاط سے کام لے رہی ہے جبکہ ہم تشدد کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کے لیے مذاکرات کا عمل جاری ہے۔

جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے بھی وعدہ خلافی ہوچکی ہے اور اب بھی وعدہ خلافی ہورہی ہے تو کیا پنجاب حکومت یرغمال بن چکی ہے؟

اٹارنی جنرل پاکستان نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کا حکم ہم نے دھرنے والوں کو بھیجا ہے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا مطلب فیصلہ اب دھرنے والے کریں گے۔

جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کہ دھرنے والے 17 دن سے کیسے کھا پی رہے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مقامی لوگ مدد کررہے ہیں جبکہ دھرنے میں شریک لوگ مسلح بھی ہیں لہٰذا حکومت ربیع الاول کے مہینے میں حکومت خون خرابہ نہیں چاہتی۔

انہوں عدالت کو مزیر بتایا کہ دھرنے والوں کے خلاف اب تک 19 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں جبکہ 169 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ دھرنا ختم کرانے کے لیے حکومت کیا اقدامات کررہی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہ حکومت ٹھوس اقدامات کرنے والی ہے جس کی تفصیلات آپ کو چیمبر میں بتائی جاسکتی ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ چیمبر میں تفصیلات نہ بتائی جائیں بلکہ سربمہر لفافے میں تفصیلات فراہم کر دی جائیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس معاملے کو منظر عام پر لانے سے اسکا اثر زائل ہو جائے۔

اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ آج ہی آپ کو سربمہر لفافے میں تفصیلات فراہم کر دی جائیں گی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم مستقبل کے لیے بھی عملی اقدامات کررہے ہیں جن میں سے کچھ خفیہ رکھے گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دھرنے والوں کی تعداد بڑھ نہیں رہی۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ میں ایسی بات موجود نہیں جو اخبار میں نہ چھپی ہو۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انٹیلی جنس اپنا کام ٹھیک نہیں کررہی، یہ ملک کا مضبوط ادارہ ہے اسے ڈیلیور کرنا چاہیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ دھرنے کے پیچھے کون ہے اور اس کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے اور اگر اس میں غیر ملکی ملوث ہیں تو اس سے دھرنے کے قریب واقع دفاعی اثاثوں کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو دھرنے والوں کی کھانے اور پینے کی سپلائی لائن بند کرنے اور ان کے اکاؤنٹس کو منجمند کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت جاری کردی۔

سپریم کورٹ نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان فیض آباد کے علاقے میں مذہبی جماعتوں کے دھرنے پر ازخود نوٹس کی سماعت کو آئندہ جمعرات (30 نومبر) تک ملتوی کر دی۔