64

بے مہار طوفانوں کو لگام ڈالی جائے

یہ سچا واقعہ میرے بھانجے سعد نے سنایا تھا کہ وہ ترکی میں پاکستان کا سفارتکار رہا ہے۔ 2010میں پاکستان کے سیلاب کی تباہ کاریوں کی خبریں انٹرنیشنل میڈیا پر بھی چلنے لگیں توانھی دنوں انقرہ میں تعینات سفیرِ پاکستان کو ایک خط موصول ہوا۔ لکھا تھا ’’میرا نام خالدوردل ہے، میں دو بچوں کی ماں ہوں اور ہم انقرہ کے نواحی علاقے میں رہتے ہیں، رات کو میںتپائی پر اپنے شوہر اور بچوں کے لیے کھانا لگا رہی تھی کہ ٹیلیویژن پر پاکستان میں آنے والے سیلاب کی خبریں آنے لگیں، پاکستان کا نام سن کر ہم سب متوجہ ہوگئے۔

ٹی وی پر دکھایا گیا کہ پاکستان کے ہزاروں لوگ سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہوگئے ہیں۔ ہمارے ان تباہ حال بہن بھائیوں کے تو گھر تباہ ہو گئے ہیں، انھوں نے کھانا کیسے کھایا ہوگا۔ یہ سوچ کر مجھے شرم محسوس ہوئی، کہ ہمارے ہزاروں بہن بھائی بھوکے اور بغیر کھانا کھائے پڑے ہیں اور ہم آرام سے کھانے کھاتے رہیں،یہ کتنے شرم کی بات ہے، شوہر کی جانب دیکھا تو اس کے بھی یہی جذبات تھے، بچوں کو بتایا تو انھوں نے بھی کھانا کھانے سے انکار کردیا، ہم میں سے کسی نے بھی کھانا نہیں کھایا۔ ماضی میں مشکل وقت میں آپ نے ہماری مدد کی تھی، اب ہماری باری ہے مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس صرف ایک انگوٹھی اور کانوں کی دو بالیاں ہیں، وہ میں فوری طور پر بیچ رہی ہوں۔ جلد ہی گھر کی کچھ چیزیں بیچ کر اور پیسے بھیجوں گی۔‘‘

سیلاب کے دوران ترکی ہی کی ایک دس سالہ بیٹی مرو بیضا نے صدرِ پاکستان کو خط لکھا تھا’’مسٹر پریذیڈنٹ! میں چاہے بہت چھوٹی ہوں مگر پاکستان میں سیلاب کی خبریں سن کر بہت دکھ ہوا ہے۔ میں یہ خط یہ بتانے کے لیے لکھ رہی ہوں کہ ہمیں آپ کی تکلیف کی خبر مل گئی ہے۔ امداد کے لیے فوری طور پر اپنی ایک سال کی جمع کردہ پاکٹ منی بھیج رہی ہوں، مگر میں اور بھی بھیجتی رہوں گی۔ یہ رقم قبول کرنے سے انکار نہ کیجیے کیونکہ ہم آپ کے بہترین دوست ہیں۔‘‘

اگر ہمارے سیلاب زدگان کا دکھ درد محسوس کرکے ہزاروں میل دور ترکی کی ایک بیٹی تڑپ اُٹھتی ہے اور وہ اور اس کے بچے کھانا تک نہیں کھاتے تو وہ تڑپ اور وہ درد اس بار وطنِ عزیز میں کیوں نظر نہیں آیا۔ یہاں لقمے آسانی سے حلق سے کیوں اُتر رہے ہیں؟ یہاں کھانا کھاتے ہوئے پاکستانیوں کے ہاتھ کیوں نہیں رکے؟ جس جگہ ہم (ڈی ایچ اے کے باسیوں) نے سیلاب زدہ بہن بھائیوں کے لیے ریلیف کیمپ لگا رکھا ہے، اس کے قریب کئی ریستوران ہیں، یہاں آبادی زیادہ نہیں ہے مگر مغرب کے بعد گاڑیاں اتنی کثیر تعداد میں ہوتی ہیں کہ پارکنگ کی جگہ نہیں ملتی اور ریستوران کے اندر تو انتظار کرنے والوں کی لمبی لائنیں لگی ہوتی ہیں، یہی حال کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے بڑے ہوٹلوں کا ہے۔ مہنگے کھانے اور کھابے اُسی طرح چل رہے ہیں، اُسی طرح موج مستی چل رہی ہے۔

اس ملک میں پچھلے پندرہ بیس سالوں میں ایک ایسی نسل اور ایک ایسا طبقہ پیدا ہوچکا ہے جسے صرف اپنے عیش و نشاط سے غرض ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو ٹی وی پر لاکھوں پاکستانیوں کو بے گھر ہو کر آسمان تلے بے یارومددگار پڑا دیکھ کر بھی ایک کھانے کابیس بیس ہزار بل ادا کرتے ہیں اور ان کا ضمیر انھیں ملامت نہیں کرتا۔ یہ طبقہ اپنے آفت زدہ بہن بھائیوں کے لیے اپنی موج مستی اور کھیل تماشے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ترقی یافتہ قومیں کھیل کو کھیل ہی سمجھتی ہیں مگر اپنی کمرشل ضروریات کے لیے انھوں نے ہم جیسی قوموں کو ہیجان زدہ بنادیا ہے جو کھیل کو کشمیر کی جنگ سمجھ لیتی ہیں۔