42

خاموش اژدھا

چند دن پہلے صاحب کا فون آیا کہ لاہور آ چکا ہوں، ملاقات ہونی چاہیے۔ فارم ہاؤس میرے گھر سے کافی دور ہے، وقت تو طے ہو گیا مگر لاہور میں ٹریفک کے اور انسانوں کے سیلاب کی بدولت تھوڑی تاخیر سے پہنچا۔

فارم ہاؤس کے باہر مکمل تاریکی تھی۔میں نے سوچا شاید صاحب انتظار کر کے سو گئے ہیں یا فارم ہاوس سے جا چکے ہیں۔ غیر ملکی ملازم نے بتایا کہ صاحب یہیں ہیں،انتظار کر رہے ہیں۔فارم ہاوس اتنا وسیع ہے کہ انسان حیران ہوجاتا ہے۔

اندر گیا تو صاحب نہ سگار پی رہے تھے اور نہ ہی نزدیک کوئی پالتو سانپ بیٹھا ہواتھا۔ ڈریسنگ گاؤن پہن کر بڑے انہماک سے ’’ٹام اینڈ جیری‘‘ کے کارٹون دیکھ رہے تھے۔ عجیب سا لگا، اتنی توجہ سے تو کوئی بچہ بھی کارٹون نہیں دیکھتا ۔ باتیں شروع ہو گئیں۔ کارٹون دیکھنے کی ضرورت کیوں آن پڑی؟ سوال سن کرصاحب نے کیوبن سگار منگوایا۔ سلگا کر بڑے اطمینان سے کہا کہ یہ کارٹون نہیں ہیں۔ کیا مطلب؟ ٹام اینڈ جیری تو کارٹون ہی ہیں، یہ دنیا جانتی ہے ۔  اس پر صاحب نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا، ڈاکٹر! تمہارا ملک اب ٹام اینڈ جیری کی سیریز بن چکا ہے۔

فرق صرف اتنا ہے کہ ملک کا یہ روپ مزاحیہ نہیں بلکہ یونانی ٹریجڈی ہے۔ میں نے پوچھا،تمہارے ملک سے کیا مراد ہے، آپ بھی تو پاکستانی ہیں۔ صاحب نے اسی سنجیدگی سے جواب دیا۔ قطعاً پاکستانی نہیں ہوں۔ میرے پاس تو آئرلینڈ کی شہریت ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ تو صرف یہاں آنے جانے کے لیے استعمال کرتا ہوں۔

شہریت گیارہ برس پہلے حاصل کی تھی کیونکہ جب مجھے یقین ہو چکا تھا کہ تمہارے ملک نے کبھی ترقی نہیں کرنی۔ اور یہاں آنے والا ہر دن‘ گزرتے ہوئے دن سے زیادہ تباہ کن ہو گا۔ اور ہاں!اس پر زیادہ بحث بھی نہیں ہو گی۔ صاحب نے پوچھا کہ پاکستانیوں کی اکثریت ملک سے ہجرت کیوں کرنا چاہتی ہے؟ نوجوان نسل کیوں یہاں رہنا نہیں چاہتی؟ ویسے میرے پاس اس سوال کا کوئی معقول جواب نہیں تھا۔ یہ بات تو حقیقت ہے کہ بیرون ملک جانے کے خواہش مندوں کی تعداد حد درجہ زیادہ ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ صاحب کے پاس غیر ملکی شہریت ہے۔ اس کا ذکر کبھی پہلے نہیں کیا گیا۔

 

صاحب نے طویل مکالمہ شروع کر دیا۔ ڈاکٹر! یقین کرو کہ میں ایک ہفتے سے لاہور میں ہوں مگر یہاں کسی سے بھی نہیں ملا۔متعدد اہم لوگوں نے ملنے کی خواہش کی مگر میرا اسٹاف انھیں ٹالتا رہا حالانکہ میں بالکل فارغ تھا۔ میں نے پوچھا، مگر کیوں؟ وہ بولے ،اس بار یہاں آ کر اقتدار کا اتنا بے رحم بلکہ گھناؤنا کھیل دیکھا ہے کہ عقل دنگ رہ گئی ہے۔

پاکستان کے مقتدر ادارے اور اہم ترین لوگ اس ملک کی قسمت سے کھیل چکے ہیں۔ کوئی بھی اس ملک کے بائیس کروڑ عوام سے مخلص نہیں ہے۔ لیکن جناب یہ تو ہر پاکستانی جانتا ہے۔ میرے سوال کے بعد صاحب نے خاموشی سے اپنے ملازم کو ایک ٹیلی فون لانے کو کہا، یہ سیٹلائٹ فون تھا۔ بٹن دبایا تو چند پیغامات سنائی دیے۔ دو تین لوگ‘ صاحب کو کہہ رہے تھے کہ ان کی اولاد کو فوراً مغربی ممالک میں منتقل کر دیں۔ نیز ان کی پاکستان میں موجود دولت کو فوراً سوئٹزر لینڈ بھجوا دیں۔

 

ان لوگوں کی آواز کم از کم میرے لیے اجنبی تھی۔ مگر پیغامات تو عام سے ہیں، ان میں کون سی ایسی بات ہے جو ہمیں معلوم نہیں۔ سب کو پتہ ہے کہ کوئی بھی امیر شخص اس ملک میں اپنی اولاد اور دولت نہیں رکھنا چاہتا۔ صاحب نے پوچھا! آواز پہچانتے ہو۔ نفی کے جواب میں بتانے لگے کہ یہ وہ اہم ترین لوگ ہیں جو ملک چلا رہے ہیں بلکہ اس بدقسمت ملک کے مالک ہیں، جب نام بتائے تو عقل دنگ رہ گئی۔ اعلیٰ جگہوں پر بیٹھے ہوئے قائدین ‘ جو ملک کی تقدیر سمجھے جاتے ہیں، فیصلہ کر چکے ہیں کہ اب ان کے اہل خانہ کو غیر ملکی محفوظ چراگاہوں میں منتقل ہونا ہے۔

مگر یہی مٹھی بھر لوگ تو پاکستان کی موجودہ پہچان ہیں۔ نام جان کر بہت دکھ ہوا۔ صاحب نے کہا کہ معلوم ہے کہ یہ دولت کونسی ہے۔ یہ صرف چار پانچ ماہ میں کمائی جانے والی غیر قانونی دولت ہے جو اب ملک سے باہر لے جانا چاہتے ہیں۔ ذہن بھک سے اڑ گیا۔ مگر یہ چند لوگ تو عوام میں ایمانداری کی پہچان ہیں۔ صاحب نے ہنسنا شروع کر دیا۔ کتابوں میں بتایا جانی والی ایمانداری کا وجود کسی ملک میں بھی نہیں ہے، پاکستان تو خیر کسی کھاتے میں نہیں ہے۔ دنیا بھر کے اہم اور ناجائز دولت رکھنے والے میرے رابطے میں رہتے ہیں۔

مگر گزشتہ ستر برس سے جتنا جھوٹ بول کر پاکستان میں سفاکی سے لوٹ مار ہورہی ہے، دنیا کے کسی اور ملک میں شاید نہ ہو۔ یہاں منافقت سب سے زیادہ ہے ۔ سچ بولنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرا تو یہ دھندا ہے ۔کاروبار ہے کیونکہ اقتدار اور پیسے کے کھیل کا کھلاڑی ہو۔ مگر جو دھوکا دہی یہاں مسلسل جاری ہے ‘ شاید دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود نہیں ہے۔ ان لوگوں کا کام تو ہو جائے گا۔ مجھے کمیشن کی کثیر دولت بھی مل جائے گی لیکن ملک مزید کھوکھلا ہو جائے گا۔ ان شخصیات کے نام جاننے کے بعد خیر میں نے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی۔

ٹام اینڈ جیری کارٹون کا کیا معاملہ ہے؟ صاحب نے غیر جواب دیا۔ ڈاکٹر! اب یہ کھیل عروج پر ہے۔ بلی‘ چوہے کو پکڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کبھی چوہا سمجھتا ہے کہ وہ کامیاب ہو گیا اور کبھی بلی گردانتی ہے کہ چوہے کو پکڑ لیا۔ عرض کرتا چلوں۔ ٹام اینڈ جیری بھی چوہے اور بلی کے کرداروں پر مشتمل دنیا کی کامیاب ترین مزاحیہ سیریز ہے۔

چوہا اپنی جان بچانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ بلی‘ چوہے کو زندہ دبوچنے کے لیے ہمہ وقت کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ کبھی کبھی‘ دوسرے جانوروں کے خلاف یہ دونوں متحد بھی ہو جاتے ہیں۔ بلی کو دباؤ میں رکھنے کے لیے طاقتور کتے بھی موجود ہوتے ہیں اور چوہے کو بچانے کے لیے اکثر کوئی پرندہ یا کوئی دوسرا جانور ضرور آتا ہے۔

اس لیے عرض کیا کہ ذہن نشین ہو جائے کہ ٹام اینڈ جیری کا مطلب کیا ہے۔ مگر صاحب جس زاویے سے بات کر رہے تھے، وہ مزاحیہ نہیں بلکہ المیہ تھا، خوفناک اور بربادی کا ایک منظم پروگرام۔ سوال کیا، ان بائیس یا پچیس کروڑ عام لوگوں کا مقدر کیا ہے؟ صاحب سوال سن کر مسکرانے لگے ، یہ بھی صرف جھوٹ سننا چاہتے ہیں، سچ ان کے لیے بھی زہر قاتل ہے۔ لہٰذا یہ نعروں اور وعدوں پر خوش رہیں گے اور اسی امید کے سراب کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اگلی دنیا میں پہنچ جائیں گے ۔ تمہارے مقتدر لوگ عوام کو چارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

کبھی وطن پرستی کے نام پر، کبھی ہمسایہ ملکوں سے لڑا کر، کبھی مذہبی تفرقہ بازی میں الجھا کر‘ کبھی دہشت گردی کے خوف سے ڈرا کر۔ بہر حال عوام بے حیثیت ہیں۔ یہ ملی نغمے سننے‘ رات کو بھانڈوں کے ٹی وی پروگرام دیکھنے‘ قرض لے کر بجلی کے بل بھرنے اور سڑکوں پر بے یارو مدد گارمرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔

ان کا ترقی یا جدت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور یہ بار بار بے وقوف بننے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔ ایک نعرہ ختم ہوجائے تو آپ نیا سیاسی نعرہ گھڑ لیں، ایک وعدہ پورا نہیں ہوا تو دوسرے غیر حقیقی وعدہ کرلیں ، جس دن ان پر حقیقت عیاں ہو گئی‘ یہ ملک بدل جائے گا۔ مگر یہ کبھی ہونے نہیں دیا جائے گا۔آج صاحب کی باتوں میں تھوڑی سی تلخی اور مایوسی غالب تھی جو میرے لیے حیران کن تھی۔ کیونکہ صاحب تو دنیاوی طور پر کامیاب ترین افراد میں شامل ہوتے ہیں۔

وجہ پوچھی تو صاحب ٹال گئے۔ ڈاکٹر! یہ سیلاب پاکستان کو بچا گیا ہے۔ میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ صاحب‘ اس نے تو ملک کو برباد کر دیا۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ اس نے ملک کو محفوظ کر دیا۔ صاحب پوچھنے لگے اگر کوئی ہمسایہ ملک ‘ پاکستان کے داخلی حالات کی خرابی سے فائدے اٹھانا چاہتا ہو اور سیلاب کی وجہ سے پیچھے ہٹ جائے تو کیا کہو گے۔

سوچو! جنگ سے محفوظ رہنا زیادہ کار آمد ہے یا پانی سے مالی اور تھوڑا سا جانی نقصان ۔ جنگ میں تو نتائج کسی کے علم میں نہیں ہوتے۔ مگر طاقتور فریق ہی جیتتا ہے اور پوری دنیا کو معلوم ہے کہ پاکستان موجودہ صورت حال میں بہت زیادہ قوت نہیں رکھتا۔ اس زاویے سے سیلاب تو ہمارے ملک کا محسن ثابت ہوا۔ صاحب کی باتوں پر یقین نہیں آیا۔ مگر یہ بھی خدشہ تھا کہ شاید درست ہوں۔ پر نہیں ۔ انھیں شدید غلط فہمی ہوئی ہے۔

سیلاب بہت بڑی بلا ہے۔ اٹھتے ہوئے صرف یہ پوچھا کہ موجودہ ٹام اینڈ جیری کون ہیں؟ صاحب نے خاموشی سے اسٹڈی کی طرف دیکھا۔ دروازے سے ان کا دو رنگا پالتو اژدھا خاموشی سے باہر آ رہا تھا۔ اژدھے کے کھانے کا وقت ہو گیا ہے، چند دنوں بعد ملتے ہیں۔