نیرہ نور بے تکان باتوں کے درمیان ایک وقفے کی دین تھیں۔ یہ سال 1985 کی بات ہے۔ شاہ نواز فاروقی اور میں نے شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی میں داخلہ لیا۔ یہ بڑے اعزاز کی بات تھی۔ ایک سبب اس اعزاز کا یہ تھا کہ ہم بی اے نہیں بی اے آنرز کے طالب علم تھے۔
بی اے آنرز ہونے میں ایسی کیا خاص بات ہے، ایک اتفاق نے یہ راز سمجھایا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب لوگ اپنے گھر کے دروازے پر لگی تختی پر بی اے یا ایم اے لکھنا ضروری خیال کرتے تھے۔
اس روایت میں؛ میں نے ایک ترمیم دیکھی جب ایک گھر کے دروازے پر بی اے آنرز، ایم اے لکھا دیکھا۔ استاد محترم پروفیسر ارشاد حسین نقوی نے بتایا کہ بی اے آنرز ہونا ایک اعزاز ہے۔ یہ واحد ڈگری ہے جس میں طالب علم ماسٹرز سے پہلے ہی ایک مضمون میں اختصاص حاصل کر لیتا ہے۔ تو ہم اس ممتاز اختصاصی کورس کے خوش نصیب طالب علم تھے۔
دوسری خوش قسمتی ہماری یہ تھی کہ قدرت نے ہمیں ایسے اساتذہ عنایت کیے جو اپنے مضمون میں ہی ممتاز نہیں تھے، ادبی ، تہذیبی اور پیشہ ورانہ معاملات میں بھی معیار کا درجہ رکھتے تھے۔ مثلا استاذ الاساتذہ پروفیسر زکریا ساجد صاحب۔ حمید نظامی مرحوم نے ’نوائے وقت‘ کا اجرا کیا تو وہ اس کے نیوز ایڈیٹر تھے۔
پروفیسر متین الرحمن مرتضی مرحوم، اداریہ نویسی میں وہ ایک نئے مکتبہ فکر کے بانی تھے۔ جونیئر اساتذہ میں پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود اور پروفیسر ڈاکٹر محمود غزنوی۔ اول الذکر کا انٹرویو کی صنف میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ وہ افسانے سے شروع ہوئے اور تصوف تک پہنچے۔ یہ ان کی کالم نگاری تھی جس سے متاثر ہو کر مشفق خواجہ جیسے صاحبِ قلم نے لکھا کہ جس زمانے میں لوگ بچوں کے صفحے پر لکھتے ہیں ، طاہر مسعود نے ادارتی صفحے پر لکھا۔ محمود صاحب استاد تو اچھے تھے ہی بے مثال شاعر بھی تھے۔ یہ پس منظر تھا جس نے ہماری کلاس میں اپنے تعلیمی مستقبل کے بارے میں جوش و خروش پیدا کر دیا۔ اس سے پہلے کہ ہمارے شان دار سفر کا آغاز ہوتا، ایک سانحہ ہوگیا۔ ایک ٹریفک حادثے میں بشری زیدی نامی طالبہ جاں بحق ہو گئیں۔ یہ حادثہ فقط حادثہ نہیں تھا، ایک بدقسمت دور کا نکتہ آغاز تھا۔
پہلا تعلیمی سال ابھی شروع ہوا ہی تھا کہ ایک حادثہ ہو گیا، اس کے بعد خون ریز ہنگامے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جامعہ کئی ماہ کے لیے بند کر دی گئی۔ ایسی صورت حال میں دور دراز سے آیا ہوا طالب علم کیا کرے؟ شاہ نواز نے میری تنہائی بٹانے کے لیے ایک کام کیا۔ وہ مجھے اپنے گھر بلا لیتا جہاں ہم لوگ ڈھیروں باتیں کیا کرتے۔ باتیں کرتے کرتے تھک جاتے تو شاہ نواز ٹیپ ریکارڈر اٹھا کر لے آتا۔ شاہ نواز کے گھر ہماری پہلی ملاقات کی بات ہے جب اس نے ٹیپ کا بٹن دبایا تو اس برقی آلے سے ایک منفرد سی آواز نکلی
’جلے تو جلاؤ گوری، پیت کا الاؤ گوری
پیت میں بجوگ بھی ہے، کامنا کا سوگ بھی ہے
پیت برا روگ بھی ہے، گلے تو لگاؤ ناں۔۔۔۔‘
یہ گیت جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا، یہ پردیسی اس میں ڈوبتا چلا گیا۔ گیت ختم ہوا تو ری وائنڈ کیا، پھر سنا، پھر ری وائنڈ کیا پھر سنا الغرض تادیر سنتا چلا گیا۔ نیرہ نور نغمہ زن تھیں۔ ایسا نہیں ہے کہ شاعری سے اور موسیقی سے مجھے دل چسپی نہ تھی لیکن مجھے لگتا ہے 1985 کے مارچ میں اس میں کچھ نئے معنی پیدا ہوئے۔یہ عین وہی دن تھے جب میں نے زندگی میں پہلی بار کم و بیش ایک ہزار میل سے زاید کا تنہا سفر کیا۔ دورانِ سفر مسرت نذیر کی گائی ہوئی ایک غزل کے بول کان میں پڑے ؎
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
یہ مصرعہ تھا جس نے میرے لیے موسیقی میں معنویت پیدا کی۔
بات آئی گئی ہو گئی لیکن بشریٰ زیدی کی موت، اس کے بعد کراچی میں پانی کی طرح بہائے جانے والے لہو اور اس خون ریزی کی وجہ سے معطل ہو جانے والے تعلیمی سلسلے نے جو اداسی پیدا کی، نیرہ نور کے گائے ہوئے گیت نے میرے لیے اس میں امید کی کرن پیدا کردی۔
کسی گلو کار کے منہ سے جو الفاظ نکلتے ہیں، وہ اس کے اپنے نہیں ہوتے۔ یہ گیت بھی ابن انشا کا اعجازِ سخن تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ میں اس شاعر کی جولانیِ طبع سے آگاہ نہیں تھا۔ ان کی شہرہ آفاق غزل انشا جی اٹھو اب کوچ کرو میں چھپا دکھ اور اداسی مجھے متوجہ کرتی تھی پھر استاد امانت علی خان نے اس کی گائیکی میں اپنے فن کی جو تاثیر شامل کر دی تھی، کون کافر ہو گا جو اس کی اثر انگیزی سے محروم رہا ہو گا لیکن یہ آواز جدا تھی۔استاد امانت علی خان کی کلاسیکی موسیقی ہو یا ملکہ ترنم نور جہاں کی نیم کلاسیکی اور فلمی گائیکی، یہ سب اساتذہ اپنے فن کی معراج پر رہے ہیں لیکن نیرہ نور کی آواز ان دونوں اسالیب کے مقابلے میںایک نیا اور منفرد آہنگ رکھتی تھی۔نیرہ نور کے اس آہنگ کا الفاظ میں بیان مشکل ہے۔
میرے نزدیک اس کا پہلا وصف ان کی تان اور اٹھان میں توازن کی ایک ایسی کیفیت ہے جس میں آسمان تک پہنچتی ہوئی تندی ہے اور نہ لے میں وہ بے باکی جو سننے والے کے تصور میں بقول منٹو مرحوم سرور جہاں جیسی کوئی تصویر نقش کردے۔ اس آواز میں وقار ہے، دھیمی آنچ میں پکنے والی محبت کی کسک اور بجوگ کے دکھ سے پیدا ہونے والی تڑپ ہے لیکن یہ سب ایسا ہے جو کسی گھر کی چار دیواری کے اندر ہوتا ہے۔ یہ کیفیت نیرہ نور کو صرف اپنے ہم عصروں میں ممتاز نہیں کرتی بلکہ تمام گانے والوں میں بھی ممتاز کرتی ہے۔ میرے خیال میں ان کی یہ انفرادیت دائمی ہے۔
نیرہ نور کا ایک اور امتیاز سمجھ کر گانا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان سے پہلے گانے والے اساتذہ سمجھ کر نہیں گاتے تھے۔ اقبال بانو مرحومہ سمیت بہت سے گلو کاروں کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ شعر کو سمجھنے کے لیے شعرا سے راہ نمائی لیا کرتے تھے۔ نیرہ نور نے بھی اس روایت کی پاس داری کی لیکن ان کی ایک انفرادیت ہے۔ انھیں گاتے ہوئے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ گانے کے لیے جس غزل یا گیت کا انتخاب کرتی ہیں، پہلے اپنی ذات کو اس سے ہم آہنگ کرلیتی ہیں۔ اس عمل کو شاعری کی اصطلاح میں آمد اور آورد کے فرق سے سمجھا جاسکتا ہے۔
شعر کی کیفیت کے اظہار کے لیے الفاظ کی نشست و برخاست پر زور تو سبھی اساتذہ نے دیا ہے لیکن نیرہ کی کیفیت جدا ہے۔ ان کے ہاں نفاست کے ساتھ کسی لفظ پر زور دینے کا انداز مختلف ہے۔ یوں کہہ لیں کہ وہ منہ زوری سے کام لینے کے بجائے دھیمے سے اصرار کے ساتھ ضد کرتی ہیں جس کی دستک سیدھی دل پر ہوتی ہے۔
نیرہ کے اس انداز کی مماثلت فیض صاحب کے اسلوب کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔ فیض صاحب کی فکر میں کچلی ہوئی انسانیت کے لیے گہرے دکھ کا احساس بھی ہے اور اس ظلم سے نکلنے کے لیے انقلاب کی توانا آرزو بھی لیکن فیض کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی فطری رومانویت سے کام لے کر دیگر شعرا کی طرح اپنے شعر کو نعرہ نہیں بننے دیتے۔ اس اعتبار سے فیض کی شاعری اور نیرہ کی گلو کاری ہم مزاج ہیں۔
نیرہ کو میں نے صرف ایک بار دیکھا۔ کسی نشست میں، میں نے ایک مضمون پڑھا جس میں اقبال علیہ رحمہ کا یہ شعر بھی آ گیا تھا ۔
ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
یہ شعر پڑھتے ہوئے جانے کیوں میری نگاہ تقریب میں موجود نیرہ نور کی جانب اُٹھ گئی۔ جیسے جیسے میں شعر پڑھتا جاتا تھا ، وہ سر دھنتی جاتی تھیں۔ مضمون پڑھ کر میں نیچے اترا تو وہ اپنی نشست سے اٹھ کر آگے بڑھیں اور شفقت سے میرا کاندھا تھپتھپایا۔ میرا عزیز دوست مودا یعنی محمود حسین موسیقی سے متعلق میرے ذوق کے بارے میں کہا کرتا تھا:
’ابے چل، تو تو امی جان کا متوالا ہے۔‘‘
اُس روز نیرہ نور کی شفقت کا لمس محسوس کرتے ہوئے مجھے مودا بہت یاد آیا۔