85

کابل کا ایک سال

15اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کو ایک سال ہوگیا ‘اس ایک سال میں طالبان کے رویے اور طرز حکومت کا ایک جائزہ لینے کی کو شش کرتے ہیں‘اندرونی مسائل بعد میں پہلے بین الاقوامی وعدوں کی صورت حال۔

امریکی افواج نے 9/11کے بعد افغانستان میں طالبان کی قدامت پرست حکومت ختم کردی تھی۔اب دو دہائیوں کے بعد ایک سال قبل طالبان نے افغانستان پر دوبارہ قبضہ کرلیا ہے ‘اس قبضے سے قبل امریکی حکومت اور طالبان کے درمیان دوہا (قطر) میں ایک معاہدہ ہوا تھا‘اس معاہدے میں طالبان نے وعدہ کیاتھا کہ وہ القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھیں گے اور کسی تنظیم کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال کرے‘اس کے علاوہ انھوں نے عالمی برادری کے ساتھ یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ افغانستان میں ماضی کی سخت گیر پالیسی کے بجائے اعتدال پر مبنی پالیسیوں پر عمل کریں گے ‘خواتین کی تعلیم اور دوسرے حقوق کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی پابندی بھی کریں گے ۔

طالبان نے خوفزدہ افغانوں اور ایک ہوشیار اور باخبر عالمی رائے عامہ کو یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ اس بار وہ مثبت طور پر مختلف ہوں گے لیکن طالبان قیادت کے سابقہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے بہت کم لوگ ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ طالبان نے پانچ وعدے خاص طور پر کیے تھے۔

اول یہ کہ عورتوں کو حقوق دیے جائیں گے ،طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ طالبان خواتین کے حقوق کے لیے پر عزم ہیں‘ انھیں کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کی آزادی ہوگی‘ انھوں نے مزید کہا کہ افغان خواتین کے حقوق کا تعین اسلامی قوانین کے مطابق کیا جائے گا‘طالبان کی انتہائی قدامت پرست قیادت نے ہمیشہ ان حقوق کی تشریح اپنی سوچ کے مطابق کی ہے۔

1996-2001کے اقتدار کے دوران ملا عمر کی سربراہی میں طالبان حکومت نے خواتین کے حقوق کی من مانی تشریح کی اور قوانین کا نفاذ کیا ‘ لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی تھی اور خواتین کو زیادہ تر عوامی زندگی سے روک دیا گیا تھا‘گھر سے صرف اس وقت باہر جانے کی اجازت تھی‘جب برقع میں سرسے پاؤںتک ڈھانپ کر اور ان کے ساتھ کوئی مرد رشتہ دار ہو‘ان قوانین کی خلاف ورزی پر خواتین کو سزا دی جاتی تھی ۔آج بھی طالبان کی سوچ میں تبدیلی نظر نہیں آرہی ، یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں خواتین کی صورت حال میں زیادہ تبدیلی نہیںآئی‘ لڑکیوںکے پرائمری، ہائی اسکولز اور کالج وغیرہ بند ہیں‘ سر سے پاؤں تک مکمل پردہ لازمی قرار دیا گیا ہے ‘اکیلی عورت کو سفر کرنے کی اجازت نہیں‘وہ ڈرائیونگ نہیں کر سکتیں‘یہاں تک کہ ٹی وی اناؤنسر کو بھی پردے میں کام کرنا پڑتاہے۔

 

دوئم، یہ کہ طالبان اقتدار میں آکر اپنے مخالفین سمیت سب کے لیے عام معافی کا اعلان کریں گے، طالبان کا اب بھی یہی اصرار ہے کہ انھوں نے ان تمام لوگوں کو معاف کردیا ہے ’جنھوں نے ان کے خلاف لڑائی کی‘ بشمول سرکاری ملازمین، پولیس اور مسلح افواج لیکن جب طالبان کابل پر قبضہ مستحکم کررہے تھے تو بہت سے مخالفین کو قتل کیا گیا، طالبان کے سابقہ ریکارڈ کی وجہ سے افغانستان کے لبرل اور ماڈریٹ طبقات پریشان اور خوف کا شکار ہیں۔ طالبان کی فتح کے بعد سے ہزاروں افغانوں نے اسی خوف کی وجہ سے ملک چھوڑنے کی کوشش کی ۔

 

اپنی پہلی حکومت میں طالبان نے سیاسی مخالفین کو قتل کیا اور ماڈرن شہریوں اور مذہبی اقلیتوں کا بھی قتل عام کیا‘ حالیہ مہینوں میں بھی طالبان پر ہتھیار ڈالنے والی افغان افواج کے کئی افسروں اور شہریوں کو قتل کرنے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے ‘اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا ہے کہ ممکنہ جنگی جرائم کی اطلاعات ہیں۔

سوئم، یہ کہ سفارت خانوں اور غیر ملکی تنظیموں کی حفاظت یقینی بنائی جائے گی۔طالبان نے فوری طور پر غیر ملکی حکومتوں اور تنظیموں کو یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ ان کے سفارت خانے‘دفاتر اور اہلکار محفوظ ہیں‘تاہم جب بات غیر ملکی سفارت خانوں کی ہو ‘تو طالبان کا ریکارڈ خراب ہے‘1996میں وہ اقوام متحدہ کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوئے ‘جہاں سابق صدر ڈاکٹر نجیب اور ان کے بھائی کو پناہ دی گئی تھی ‘اسے مارنے کے لیے باہر گھسیٹا اور لاش کو ایک چوک میں لٹکا دیا ‘دو سال کے بعد جب طالبان نے ازبکستان کی سرحد کے قریب شہر مزار شریف پر قبضہ کیا تو انھوں نے ایرانی قونصل خانے پر دھاوا بول دیا ‘جس میں نو سفارت کاروں اور ایک صحافی کو قتل کیا گیا ۔اب بھی پچھلے دنوں ایک ہزارہ افغان گوریلا کمانڈر کو قتل کیا گیا ہے۔

چہارم، یہ وعدہ کیا گیا کہ افغان سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔دوہا معاہدے میں ایک بنیادی نکتہ یہ تھا کہ طالبان حکومت افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرے گی اور کسی بھی مسلح گروہ کو ہمسایہ ملکوں سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ ان کی حکومت افغانستان کے تاجک، ازبک، ہزارہ منگول،ایرانی، پامیری،گجر اور دیگر نسلی گروہوںکو حکومت میں شامل کرے گی اور ان  کے ساتھ کسی قسم کاامتیازی رویہ یا دشمنی نہیں رکھی جائے گی۔

ان قوموں کو کسی قسم کے خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا‘تاہم جون میں جاری ہونے والی سلامتی کونسل کی مانیٹرنگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان اور القاعدہ اب بھی ایک دوسرے کے قریب ہیں‘ایمن الظواہری کی کابل میں ڈرون حملے سے موت اور پاکستانی طالبان کو تحفظ دینا،طالبان حکومت کے دوغلے پن کو عیاں کرتا ہے۔

دوہا (قطر)میں ایک وعدہ یہ کیا تھا کہ القاعدہ سمیت کسی بھی دہشتگرد تنظیم کو افغانستان میں پناہ نہیں دیں گے لیکن القاعدہ کے امیر ایمن الظواہری کابل کے انتہائی محفوظ اور پوش علاقے کے ایک بنگلے میں معہ اپنے خاندان کے مزے سے قیام پذیر تھے، وہ امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تو سب کو اصلیت کا پتہ چل گیا۔

پاکستانی طالبان افغانستان میں مزے سے رہ رہے ہیں‘ افغان طالبان نے پہلے افغانستان کی جیلوں میں قید ٹی ٹی پی کے لوگوں کو رہا کرایا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد اب پاکستان میں موجود اپنے خیرخواہوں،حامیوں اور نظریاتی ساتھیوں کے ذریعے پاکستان کو مجبور کرکے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھا دیا‘یعنی انھیں پاکستان کے حوالے کرنے کے بجائے حاکمانہ انداز میں پاکستان واپس بجھوانے کی کوشش کی جارہی حالانکہ افغان طالبان کی قیادت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ٹی ٹی پی کے مطالبات غیر آئینی‘غیر قانونی، معروضی حقائق کے برعکس اور پاکستان کی وحدت و سلامتی کے خلاف ہیں ۔

فاٹا کو واپس فاٹا بناؤ‘ عام معافی کا اعلان کیا جائے، نقصانات کی تلافی ، اسلحہ رکھنے کی اجازت ، ان کی فکر و فہم پر مبنی شرعی نظام کا نفاذ ‘نظریہ پاکستان پر عمل کرو ‘ نظریہ پاکستان بھی ان کا اپنا ہی تراش کردہ ہے ، ان کے مطابق تو انگریز کے خلاف جدوجہد ہی انھوں نے کی ہے اورپاکستان طالبان نے بنایا ہے، باقی کسی کا کوئی کردار ہی نہیں ہے ،کیا ایسے مطالبات سن کر ماتھا پیٹنے کو دل نہیں کرتا۔ پاکستان نے ٹی ٹی پی کو راضی کرنے کے لیے ملک کے جید علماء سمیت کئی اہم وفود کابل بھیجے لیکن ابھی تک کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا۔

طالبان نے دوہا معاہدے میں وعدہ کر رکھا ہے کہ افغانستان میں منشیات کی کاشت اورصنعت کو ختم کردیا جائے گا لیکن اب بھی افغانستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ملک منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ کے لیے دنیا کا ایک مرکز ہے۔

طالبان کی حکومت قائم ہوئے ایک برس ہو گیاہے،عالمی برادری مختلف حوالوں سے طالبان کے ساتھ رابطوں میں ہے لیکن ان کی بعض پالیسیوں کو دیکھ کر کوئی بھی ملک ان کو باضابطہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔خواتین اور دیگر انسانی حقوق کے حوالے سے طالبان حکومت سخت آزمائش میں ہے۔ حکومت پر سخت گیر طالبان کا کنٹرول ہے، معتدل طالبان قیادت فی الحال بیک فٹ پر ہے۔ اس کا نقصان افغانستان کے عوام اور معیشت کو پہنچ رہا ہے، طالبان حکومت دوہا معاہدے پر پوری طرح عمل نہیں کرپا رہی ہے ‘ یہی کمزوری عالمی برادری کی طرف سے باقاعدہ تسلیم کرنے کی را ہ میں رکاوٹ ہے ‘یہاںتک کہ وہ ممالک بھی آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو ان کے ساتھ ہمدردی رکھتے تھے۔