وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے ایک ٹی وی کو انٹرویو میں کہا کہ پاکستان میں ایک چھوٹے سے چھوٹا دکاندار بھی ماہانہ ایک لاکھ روپے کما لیتا ہے تو اسے حکومت کو صرف تین فیصد ماہانہ ٹیکس تو خوش اسلوبی سے خود ہی ادا کرنا چاہیے۔
وزیر خزانہ کی اس بات پر ٹی وی اینکر کو وزیر خزانہ کی اس بات کی تردید کرنا چاہیے تھی مگر مذکورہ اینکر کی خود کوئی دکان ہوتی تو انھیں پتا ہوتا کہ موجودہ کئی سالوں سے جاری خراب معاشی حالات میں چھوٹے تو کیا بڑے بڑے تاجر رو رہے ہیں کہ کاروبار نہیں ہے۔
پہلے عید بقر عید پر کاروبار تیز ہوتا تھا تو تاجر رہنما خود ہی بتاتے تھے کہ اس عید پر اتنی خریداری کی گئی۔ اس بار تو دونوں عیدیں اتحادی حکومت میں آئیں مگر کسی تاجر رہنما نے نہیں بتایا کہ عوام نے اتنے ارب کی خریداری کی ہے۔ ملک کے معاشی حالات تو پی ٹی آئی حکومت میں ہی خراب ہونا شروع ہوگئے تھے جو اتحادی حکومت میں نہ صرف مزید تباہ ہوئے بلکہ مہنگائی و بے روزگاری بڑھنے کے علاوہ روپے کی گراوٹ اور ڈالر کی اونچی اڑان کا نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے ۔
بڑے بڑے سیاستدانوں کی کوئی دکان نہیں بلکہ وہ بڑی بڑی صنعتیں چلا رہے ہیں اور ان کی فیکٹریوں کا مال ان ہی دکانوں کے ذریعے فروخت ہوتا ہے اور ان کی فیکٹریاں اس لیے بھی کما رہی ہیں کہ بعض کی تیار کردہ بچوں کے کھانے کی کنفکیشنریز پر کوئی سرکاری ٹیکس عائد نہیں ہوتا۔ وزیر خزانہ نے بجٹ کے موقع پر کہا تھا کہ خود ان کی فیکٹریوں کو 20 کروڑ کا مزید ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔
بہتر ہوتا کہ وہ یہ بھی بتا دیتے کہ وہ سالانہ کتنے ارب روپے کما رہے ہیں اور پہلے سے ہی کتنا کروڑ روپیہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں کہ ان پر مزید 20 کروڑ روپے جو ٹیکس بڑھے گا وہ اتنی رقم کیسے کمائیں گے اور اپنی فیکٹریوں کی اشیا کتنی مہنگی کرکے عوام پر مزید بوجھ ڈالیں گے اور 20کروڑ زائد دے کر وہ خود مزید کتنا کمائیں گے کیونکہ ہر صنعت کار نرخ بڑھا کر عوام سے اضافی ٹیکس وصول کرلیتا ہے اور اس کی کمائی سے اضافی ٹیکس نہیں جاتا بلکہ وہ نرخ بڑھا کر اپنی کمائی مزید بڑھا لیتا ہے اور اضافی ٹیکس کو بنیاد بنا کر اپنے ملازمین کی تنخواہ بھی نہیں بڑھاتا بس اس کے بجلی و گیس کے بل بڑھتے ہیں اور اضافی ٹیکس صنعتکاروں کی آمدنی بڑھا دیتے ہیں جس سے ان کے گھریلو اخراجات بھی باآسانی کور ہو جاتے ہیں اور وہ بالکل بھی متاثر نہیں ہوتے اور متاثر صرف عوام ہوتے ہیں۔بہت سے چھوٹے دکانداروں کی تو ماہانہ سیل ہی ایک لاکھ نہیں ہوتی تو وہ ایک لاکھ روپے ماہانہ کیسے کما سکتے ہیں کہ حکومت کو تین فیصد ٹیکس دیں؟
وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ فکس ٹیکس کے نفاذ پر انھوں نے تاجر تنظیموں سے مشاورت کی ہے جبکہ ان کے بیان کی تردید کرتے ہوئے آل پاکستان انجمن تاجران کے مرکزی صدر اشرف بھٹی نے کہا ہے کہ ایسی کوئی مشاورت نہیں ہوئی بلکہ انھوں نے اپنے طور پر فکس ٹیکس عائد کیا ہے اور بغیر مشاورت مرتب کی گئی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے تاجروں کے لیے کاروبار مشکل ہو گیا ہے۔ ایک اور مرکزی تاجر رہنما اجمل بلوچ نے کہا ہے کہ مشاورت نہ کیے جانے کی وجہ سے ملک بھر کے تاجر انتہائی اقدام پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے نتیجے میں جلد قسط ملنے اور روپے پر دباؤ میں کمی آنے کے بیانات دے رہے ہیں، بیرونی قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ رہا ہے مگر مہنگائی اور تاجروں کے ساتھ چھوٹے دکانداروں کی مشکلات بڑھائی جا رہی ہیں ۔
ملک میں بہت سے چھوٹے دکاندار تو کوئی ملازم بھی رکھنے کی مالی پوزیشن میں نہیں ہیں اور خود دکان چلاتے ہیں ان کی تو بجلی کے بلوں ہی نے کمر توڑ رکھی ہے۔ بجلی کمپنیوں نے کم بجلی دینے اور بل استعمال سے زیادہ بھیجنے کی پالیسی بنا رکھی ہے۔
ہر دکان کے بجلی کے بل میں پہلے ہی متعدد ٹیکس اور ساٹھ روپے ٹی وی ٹیکس تک ماہانہ جبری طور وصول کیا جا رہا ہے جبکہ دکانوں میں دکاندار ٹیلی وژن نہیں رکھتے جو کہیں دفاتر میں ضرور ہوتے ہیں۔ مگر ہر دکاندار کے ماہانہ بجلی بل میں ٹی وی ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے جبکہ لوگوں کی اکثریت اب سرکاری ٹی وی نہیں دیکھتی مگر ہر گھریلو میٹر پر 35 روپے ماہانہ ٹی وی فیس ادا کر رہی ہے جو کروڑوں میں بنتی ہے مگر پھر بھی قوم سے شکایت ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دیتی۔
بجلی و گیس کے بلوں میں حکومت نے مختلف ٹیکس لگا رکھے ہیں۔ ہر سوئی گیس کے گھریلو بل پر نہ جانے کون سا اسٹینڈرڈ ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے جبکہ گیس کنکشن لیتے وقت کمپنی میٹر کی رقم وصول کرلیتی ہے مگر پھر بھی ہر صارف ماہانہ چالیس روپے میٹر رینٹ ادا کر رہا ہے۔
ہر گھر کے بجلی میٹر پر بل میں مہنگے الیکٹریسٹی چارجز میں سیلز ٹیکس بھی شامل کیا جاتا ہے ہر گھریلو بل پر سیلز ٹیکس کے ساتھ الیکٹریسٹی ڈیوٹی بھی شامل ہوتی ہے مگر پھر بھی انھیں نہیں پوچھا جا رہا۔ قومی اسمبلی کی پی اے سی کے چیئرمین نور عالم خان نے کہا ہے کہ دنیا میں تیل سستا مگر یہاں مہنگا ہے۔ حکمران طبقہ نہ جانے کون سی دنیا میں رہتا ہے کہ اسے کاروباری بری حالت میں ہر چھوٹا دکاندار ماہانہ ایک لاکھ روپے کماتا نظر آ رہا ہے جو حقیقت نہیں ہے۔