ہجرت کرنے والوں کو اپنے اپنے ملکوں کی یاد آتی ہے اور وہ ایسے دنوں کی تلاش میں رہتے ہیں کہ جن دنوں وہ واپس اپنے ملک جائیں بے شک کچھ دنوں کیلئے ہی سہی بس آنکھوں کو کچھ تسکین دے دیں‘ دل میں پرانے سراپا کو دہرا ہی لیں‘ لیکن کم ہی ایسی نوبت آتی ہے اور اسکی دو تین بڑی بنیادی وجوہات ہوتی ہیں نوکری سے چھٹی نہیں ملتی اور بڑی حد تک خطرہ ہوتا ہے کہ اگر نوکری کو خیرباد کہہ کے جائیں تو واپس آنے پر کیا کرینگے اگر گھر کو خالی کر دیں تو واپس آنے پر دوبارہ اتنے کرائے پر گھر مل جائیگا اگر تالہ لگا کر جائیں تو پاکستان کے حساب سے لاکھوں میں بننے والا کرایہ کس طرح ادا کیا جائیگا۔پھر ہوائی جہاز کا ایک انسان کا دو لاکھ کرایہ‘ دوستوں رشتہ داروں کیلئے معمولی تحائف بھی خریدے جائیں تو جیب پر بوجھ ایسا پڑیگا کہ سالوں تک اسکی تلافی ممکن نہیں ہو سکے گی اور آخر میں مایوسی‘ دکھ‘ر فتگان اور وطن کے راستے گلیاں یادیں ہی بس ساتھ ہوتی ہیں‘ یہ تو امیگریشن لینے والوں کی ایک سوچ کی بات ہے جو آپ سے شیئر کرلی‘4سال کے بعد میرے پوتے پوتیاں پاکستان کے سفر کیلئے روانہ ہوئے جولائی اگست کے مہینے سکولوں میں چھٹیوں کے ہوتے ہیں اور یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ کوئی زیادہ وقت کیلئے اپنے اپنے ملک بچوں کیساتھ سفر کر سکتا ہے میرے بچے بھی ایک عرصے کے بعد پاکستان گئے دو مہینے وہاں گزارے اور ابھی کچھ دن پہلے ہی واپس آگئے۔
کینیڈا سے پاکستان کا سفر صرف جہاز میں 14گھنٹے کا ہے اور ائرپورٹس پر4گھنٹے پہلے پہنچنا اور پھر لینڈ کرنے کے بعد امیگریشن کے مسائل سے نمٹنا‘ اپنا سامان اکٹھا کرنا اور گھر تک پہنچنے کیلئے مزید تین سے چار گھنٹے چاہئے ہوتے ہیں اس طرح یہ سفر24 گھنٹوں کا بن جاتا ہے جو انسان کو چار پانچ دن تک تو بہت ہی تھکاوٹ میں مبتلا کردیتا ہے‘ بچے واپس آئے تو ان کا ایسا ہی حال تھا بیٹھے بیٹھے کہیں نہ کہیں سو جاتے تھے اور راتوں کو اٹھ کر ادھر ادھر پھر رہے ہوتے ہیں۔پاکستان اور کینیڈا میں دن رات کا فرق ہے یہ فرق جیٹ لاگ میں مبتلا کر دیتا ہے جس سے نکلنے کیلئے چھ یا سات دن درکار ہوتے ہیں جب بچوں سے پاکستان کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوئی تو اپنے انپے تبصرے کرنے لگے چونکہ یہ بچے یہاں کینیڈا میں پیدا ہوئے یہاں ہی پل پڑھ رہے ہیں یہاں کے سکول‘ ماحول‘ گھر اور موسموں کے عادی ہیں تو ان سب کیلئے پاکستان ایک اجنبی جزیرے کی مانند تھا اس لئے ان کے منہ سے ننھے منے تبصرے اپنے ملک پاکستان کیلئے سن کر بہت ہی لطف آیا۔ میں نے دو ذرا سمجھدار بچوں سے سوال کیا جن کی عمریں 10سال اور9سال ہیں کہ تین اچھی باتیں اورتین بری باتیں پاکستان کے بارے میں بتاؤ میرا مقصد صرف یہ تھا کہ ان بچوں کی ذہانت کو دیکھا جائے اور پاکستان کے بارے میں بحیثیت کینیڈین ان کی رائے کو پرکھا جائے۔اس سوال کو پہلے تو دونوں بچوں نے بڑا ہی انجوائے کیا اور پھر ایک بولا تین ایسی باتیں جو مجھے پاکستان کی اچھی نہیں لگیں ایک تو ہاں جس جگہ بھی جس اشارے پر ہم گاڑی روکتے تھے چھوٹے چھوٹے بچے گاڑی کے شیشے بجاتے تھے اور بھیک مانگتے تھے۔
دادی کیا وہاں بچے بھی بھیک مانگتے ہیں یہاں کینیڈا میں تو ایسا نہیں ہے اور اگر بھیک دینے میں دیر ہو جائے تو وہ غصے میں زور زور سے شیشہ بجاتے تھے دوسری بات جو مجھے اچھی نہیں لگی وہاں مکھیاں اور مچھر بہت ہی زیادہ ہیں اور تیسری بات یہ کہ لوگ اتنی زیادہ باتیں کرتے ہیں کہ چپ نہیں ہوتے میں بڑی متاثر ہوئی کہ اس 9سال کے بچے کا تجزیہ کس حد تک درست ہے‘ بھیک تو وہاں بچے ڈنکے کی چوٹ پر مانگتے ہیں بلکہ ماں باپ کے تعاون سے ایسا کرتے ہیں مکھیاں اور مچھر بھی وافر ہوتے ہیں چونکہ یہ سب گرمی کے موسم میں وہاں تھے اسلئے ان کو زیادہ محسوس ہوا‘ کینیڈا میں مکھیاں اور مچھر انہوں نے کبھی دیکھے ہی نہیں اور تیسری بات بھی اس نے صحیح محسوس کی کہ لوگ بہت بولتے ہیں۔ اب اچھی باتیں بنانے کا نمبر تھا تو پہلی بات اسکو اچھی لگی کہ وہاں پاکستان کی گرمی بہت اچھی تھی‘ وہاں بارش بہت خوبصورت تھی‘ زیادہ بارش تھی اور اچھی لگتی تھی‘ پاکستان کا کھانا کھا کر وہ بہت خوش تھا اور اسکو لگا پاکستان کے ریستورانوں میں جو کھانا اس نے کھایا وہ کینیڈا سے بہت زیادہ اچھا تھا‘ اسکا یہ تجزیہ بھی بڑا خوبصورت تھا۔ گرمی تو اسکو اس لئے اچھی لگی کہ وہ سخت ترین سردی والے ملک سے گیا تھا اور بارش پسند کرنے کا اسکو مزاج بڑا ہی آرٹسٹک ہے اسلئے اسکو مسلسل برستی ہوتی بارش اچھی لگی۔ کھانا تو واقعی میں اسلام آباد اور لاہور میں بہترین ہوتا ہے اب دوسرے بچے کی باری تھی جو بڑی شدت سے اپنے بولنے کا انتظار کر رہا ہے وہ کہنے لگا دادی کتے اور بلیاں پاکستان میں آوارہ تھیں اس نے اتنے کتوں کو وہاں دیکھا جو بے یارومددگار اور بھوکے بھی تھے تو اسکو یہ بات عجیب لگی اس نے کینیڈا میں کتے بلیوں کے ساتھ پیار محبت کے سلوک دیکھے ہوئے تھے اور ہر سٹور میں جانوروں کی عمدہ خوراک اور ان کے بیٹھنے سونے کے بے تحاشہ خوبصورت اشیاء بھی دیکھی ہوئی تھیں کہنے لگا دادی گاڑی کے نیچے چار کتے بیٹھے ہوئے تھے اور ان کو دیکھ کر بھونکتے تھے تو ڈر لگتا تھا دوسری بات اس نے بتائی کہ سڑکیں گلیاں بہت گندی تھیں جو اسکو اچھا نہیں لگا ظاہر ہے۔
کینیڈا کی ہر ایک گلی اور سڑک پر عمدہ ترین صفائی کا انتظام تھا تیسری بات اس نے بتائی کہ بچے گھروں میں صفائی کا کام کرتے ہیں سکول کا کام نہیں کرتے میں تو انکے مشاہدات کی گرویدہ ہوگئی جس طرح انہوں نے پاکستان کی وہ برائیاں نوٹ کیں جو پاکستان میں بیٹھ کر ہم معمول کی بات کی طرح لیتے ہیں۔اچھی طرح جو اسکو لگیں کہ پاکستان میں گائے اور دنبے بہت پیارے تھے چونکہ وہ قربانی کی عید کے موقع پر پاکستان میں تھے تو دنبے اور گائے بھینسیں انکے لئے اس لئے اچنبھے کی بات تھی کہ کینیڈا میں کبھی ان کو نظر ہی نہیں آتے تھے اسکو گوشت بانٹنا اچھا لگا کہ غریب لوگ دروازے پر آکر گوشت لے جاتے تھے اور اسکو گھر کے قریب بنا ہوا پارک لگا کہ وہاں اتنے بہت سارے لڑکے بغیر کسی کی مدد کے کھیل رہے تھے اور ان کو کوئی خوف اور ڈر نہیں تھا بلکہ گھر سے اجازت تھی کہ وہ اکیلے کھیل سکتے ہیں ان دونوں بچوں کے تجربات اور تبصرے مجھے حیرت زدہ کرگئے۔میں سمجھتی تھی یہاں کینیڈا کے رہنے والے بچے اس طرح ہوشیار اور چالانک نہیں ہوتے جیسے ہمارے ملک پاکستان میں ہوتے ہیں کیونکہ ان کو پریکٹیکل کام کرنے کے زیادہ مواقع ملتے ہیں لیکن میرا اندازہ غلط تھا جو برائیاں اور اچھائیاں پاکستان کے بارے میں ان بچوں نے مجھے بتائیں وہ کچھ غلط تو نہ تھیں آپ کا کیا خیال ہے؟۔