56

چین اور روس‘ یک جان دو قالب

پاکستان اور آئی ایم ایف میں تفصیلات پبلک کرنے کا معاہدہ ایک صائب فیصلہ ہے جس کے تحت ارکان پارلیمنٹ اور بیوروکریسی کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کی جائیں گی اس ضمن میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کو پبلک کرنے کے لئے لیٹر آف انٹینٹ کا معاہدہ طے پا گیا بیوروکریسی کے بیرونی ملک اثاثوں کی تفصیلات بھی دی جائیں گی خفیہ اثاثے رکھنے والے افسران کے خلاف کاروائی بھی ہوگی۔دنیا بھر میں کینسر کے ہر دوسرے کیس کی وجہ سگریٹ یا شراب نوشی ہے یہ بات ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی ہے تحقیق کے مطابق رویوں میں تبدیلی سے کینسر کے مرض کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح بچے جنک فوڈکا کثرت سے استعمال کر رہے ہیں اور ان میں جسمانی ورزش کا فقدان بھی ہے جس سے وہ موٹاپے کا شکار ہو رہے ہیں اور موٹاپا ان کو شوگر یعنی ذیابیطس میں مبتلا کر رہا ہے۔ رہی سہی کثر موبائل کے استعمال نے پوری کر دی ہے چھوٹی سکرین کے استعمال سے ان کی آنکھوں پر بھی منفی اثرات پڑ رہے ہیں اور وہ چھوٹی سی عمر میں نظر کے چشمے لگانے کے محتاج ہو رہے ہیں۔

ہمارے ارباب بست و کشاد کو اقتدار کی جنگ سے فرصت ہو تو وہ مندرجہ مسائل کی طرف توجہ دے کر ان کا کوئی حل دریافت کریں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ملک میں طبی ماہرین پر مشتمل ایک ایسی اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے کہ جو ہر قسم کی مصنوعات کی چیکنگ کے بعد یہ سرٹیفکیٹ دے کہ وہ مضر صحت نہیں۔یہ بات ہو سکتی ہے کئی قارئین کو عجیب لگے پر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں آپ کو زوال نظر آئے گا اس بیانیہ کی وضاحت میں درج ذیل حقائق پیش خدمت ہیں سب سے پہلے کھیلوں کی دنیا کو ہی دیکھ لیتے ہیں کیا آپ کو آج ہاشم خان، اعظم خان، روشن خان،ہدایت جہاں، قمر زمان، جہانگیر خان یا جان شیر خان کے معیار کا کوئی سکواش کا کھلاڑی دنیا کے کسی بھی کونے میں نظر آ تاہے۔ کیا دھیان چند کے معیار کا کوئی ہاکی کا کھلاڑی کسی ملک کی ہاکی ٹیم میں موجود ہے۔ بریڈمین جیسا بلے باز کرکٹ کی دنیا نے پھر نہیں دیکھا، میراڈونا جیسافٹبالرپھر نہیں آ یا، فنون لطیفہ کے میدان پر اگر نظر دوڑائیں تو وہاں بھی معیار کا فقدان ہے اب سر لارنس آ لیور، انگرڈ برگمن، مدھو بالا،ایوا گارڈنر، دلیپ کمار،پرتھوی راج اور سنتوش کمار جیسے فلمی سٹارز کہاں سے لائیں۔اب نوشاد علی،شنکر جے کشن، خورشید انور اور خیام جیسے موسیقاروں اور راجندر کرشن، شیلندرا، شکیل بدایونی اور قتیل شفائی جیسے نغمہ نگاروں کو کہاں ڈھونڈیں۔

اب تو ایک عرصے سے کان ان جیسی آ وازوں کے مالکوں کو سننے کے انتظار میں موسیقی سے شغف رکھنے والوں کے بال سفید ہو گئے ہیں۔ نئے گلوکار اور گلوکارائیں اپنے آپ کو گلوگاری کی دنیا میں متعارف کرانے کیلئے مندرجہ بالا گلوکاراؤں کے انگ میں گاتے ہیں۔ اسی طرح اب فلمی دنیا میں آپ کو ضیا سرحدی،کے آ صف اور انور کمال پاشا جیسے تخلیق کار نظر نہیں آ رہے۔اب کچھ تذکرہ بین الاقوامی منظر نامے کا ہو جائے جہاں چین نے روسی توانائی کی درآمدات میں اضافہ کر دیا ہے۔یوکرین میں روسی حملوں کے بعد سے یورپی ممالک نے روسی توانائی پر اپنا انحصار محدود کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ دوسری جانب چین اور روس کے درمیان تجارتی تعلقات مزید فروغ پا رہے ہیں۔ چین اپنے پڑوسی ملک سے توانائی کی بڑی مقدار درآمد کر رہا ہے۔روس مسلسل تیسرے ماہ کے دوران چین کے لئے تیل کا سب سے بڑا سپلائر ہے۔ جولائی میں چین نے کل 7.15 ملین ٹن روسی تیل درآمد کیا جو کہ گزشتہ سالوں کے مقابلے 7.6 فیصد زیادہ ہے۔ اسی دوران چین کی روس سے کوئلے کی درآمدات جولائی میں 7.42 ملین ٹن کے ساتھ پانچ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں، جو پچھلے سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں تقریبا 14 فیصد زیادہ ہیں۔ بیجنگ نے اب تک یوکرین میں روس کی جنگ کی مذمت نہیں کی ہے لیکن ماسکو کے ساتھ اپنی وفاداری کا اثبات جاری رکھا ہوا ہے۔ چینی حکومت کی جانب سے کئی موقعوں پر روس کو حمایت کی یقین دہانی بھی کروائی گئی ہے۔

صد ر شی جن پنگ کی جانب سے ماسکو کو روس یوکرین جنگ میں حمایت کی صورت میں کروائی گئی۔ دونوں ملکوں کے سربراہان کے بیچ ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو میں چین کی جانب سے بنیادی مفادات، خود مختاری اور سلامتی جیسے خدشات سے متعلق امور پر روس کو باہمی تعاون کی پیش کش جاری رکھنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔اس حمایت کے اعلان کے بعد کریملن سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے مغرب کی غیر قانونی پابندیوں کی پالیسی کی وجہ سے عالمی معیشت کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے توانائی، مالیاتی، صنعتی، ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے پر بھی اتفاق کیا۔یوں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ چین اور روس ایک جان دو قالب ہوگئے ہیں اور وہ اب مل کر امریکہ کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں وہ کامیاب بھی ہیں۔ایک وقت تھا کہ روس اور چین ایک دوسرے کے مخالف تھے اور امریکہ کھل کر دنیا کے ہرخطے میں اپنے منصوبوں کو تکمیل تک پہنچا رہا تھا، تاہم اب وہ صورتحال نہیں رہی بلکہ اب چین اور روس کی باری ہے جس نے عالمی منظر نامے کو پوری طرح قابو میں کر لیا ہے اور امریکہ کا راستہ روک رکھا ہے۔ روس پا عائد پابندیاں اس لئے بے اثر ہیں کہ چین اس کا بھر پور ساتھ دے رہا ہے اور اس سے پٹرول، گیس کی صورت میں درآمدات کے ذریعے جہاں روس کی مدد کررہا ہے وہاں اپنا مقصد بھی حاصل کررہا ہے۔

ایک اورپیش رفت یہ ہے کہ یوکرین سے بحری جہازوں کے ذریعے اناج کی ترسیل کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے باعث یہ بحری راستے کئی ماہ تک بند رہے جس کے سبب عالمی منڈی میں خوراک کی قیمتیں کئی گنا تک بڑھ گئیں۔ترکی کی وزارت دفاع کے مطابق یوکرین کی چورنومورسک پورٹ سے گندم سے بھرے دو بڑے بحری جہاز روانہ ہو گئے ہیں۔ یوں اقوام متحدہ کی ثالثی میں طے پانے والی ڈیل کے تحت اب تک بحیرہ اسود کی بندر گاہوں سے روانہ ہونے والے خوراک سے بھرے بحری جہازوں کی تعداد ستائیس تک جا پہنچی ہے۔ یوکرین کی سی پورٹس اتھارٹی کے مطابق تین یوکرینی بندرگاہوں پر سات بحری جہازوں میں خوراک کی ترسیل کا کام شروع ہو چکا ہے جو صارفین کو 66,500 ٹن گندم، مکئی اور سورج مکھی کا تیل فراہم کریں گے۔یوکرین کی اناج کی برآمدات جنگ کے آغاز سے ہی کم ہو گئی تھی۔ روسی حملے کی وجہ سے بحیرہ اسود کی بندرگاہیں جو کہ اناج کی ترسیل کے لیے ایک اہم راستہ تھیں، بند کر دی گئیں تھی۔

 اس سے خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور افریقہ اور مشرق وسطی میں اشیا خورد و نوش کی شدید قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا۔جولائی کے آخر میں بحیرہ اسود کی تین بندرگاہوں کو اقوام متحدہ اور ترکی کی ثالثی میں ماسکو اور کییف کے درمیان ایک معاہدے کے تحت بحال کر دیا گیا۔حکام کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر بتایا گیا تھا کہ چورنومورسک اور اوڑیسا کی بندرگاہوں پر اناج اور تیل، کنٹینرز پر لادنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے جو کہ سمندری راستے سے فرانس، سوڈان، ترکی اور ہالینڈ پہنچایا جائے گا۔یوکرین کے انفراسٹرکچر کے وزیر اولیکسینڈر کوبراکوف کے مطابق یوکرین کے بحیرہ اسود کی بندرگاہوں میں مزید دس کارگو جہازوں کو اناج لے جانے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے‘انہوں نے کہا کہ یوکرین کی تین بندر گاہوں سے 25 بحری جہاز پہلے ہی روانہ کیے جا چکے ہیں جن میں 630,000 ٹن زرعی مصنوعات موجود ہیں۔