پشاورکیپٹل سٹی پولیس نے اسلحہ سے پاک پشاور مہم اور سماج دشمن عناصر کیخلاف کریک ڈاؤن مزید تیز کرتے ہوئے رواں سال کے دوران مجموعی طور پر ساڑھے 4 ہزار سے زائد افراد کو گرفتارکر کے ان کے قبضے سے جدید خودکارتھیار برآمد کئے ہیں جن میں 411 عدد کلاشنکوف، 52 کالاکوف‘185 شارٹ گن‘ 383 عدد رائفل‘ 10 ہیڈ گرنیڈ اور ساڑھے پانچ ہزار سے زائد پستول شامل ہیں جبکہ دہشتگردی کے بھی کئی منصوبے ناکام بنائے گئے ہیں۔ اس ضمن میں ایس ایس پی آپریشن کاشف آفتاب عباسی کا کہنا ہے کہ پشاور پولیس کی جانب سے شہر میں قیام امن کو یقینی بنانے اور سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث افرادکونکیل ڈالنے کی خاطر ہیومن انٹیلی جنس کو مزید فعال کرنے سمیت دیگر اہم اداروں کے ساتھ بھی کوآرڈینیشن کو مزید مربوط اورمنظم کیا گیا ہے۔
جس کے تحت انفارمیشن شیئرنگ سمیت مشتر کہ کاروائیاں بھی عمل میں لائی جارہی ہیں دیگر اہم اقدامات سمیت روزانہ کی بنیاد پر انفارمیشن بیسڈ سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشنز کا سلسلہ بھی جاری ہے تا کہ سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث عناصر کو اپنے مذموم مقاصد میں نا کام بنایا جا سکے ایس ایس پی نے جاری کریک ڈاون کے تحت ہونے والی کاروائی پراطمینان کا اظہار کیا اور اسلحہ کی نمائش میں ملوث عناصر کے خلاف بلا تفریق کاروائیاں جاری رکھنے کاعزم ظاہرکیا ہے ہمارے معاشرے میں تشدد اور اسلحے کے استعمال اور نمائش میں جس بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے وہ یقیناًجہاں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے وہاں یہ معاشرے کیلئے بھی ایک بڑے ناسور کی شکل اختیارکرتا جارہا ہے پاکستان بھر میں بالعموم اور خیبرپختونخوا میں بالخصوص آتشیں اسلحے کے استعمال کااندازہ میڈیا میں روزانہ تھوک کے حساب سے شائع اور نشر ہونے والے تشدد اور بدامنی کے واقعات پرمبنی خبروں سے بھی لگایاجاسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں اسلحے کا یہ کلچر عام ہونے کی وجوہات کیا ہیں اور اس وباء کاذمہ دارآخر کون ہے دراصل ہمارے ہاں چونکہ مسائل کو معروضی نظر سے دیکھنے کی بجائے سطحی اور عارضی بنیادوں پر دیکھنے کارواج ہے اسلئے ہمارے ہاں پائے جانیوالے کئی دیگر بے پناہ مسائل کی طرح اسلحے کے بے دریغ پھیلاؤ اور استعمال کے پیچھے بھی یہی طرز عمل کارفرماہے۔دراصل ہمارے ہاں چونکہ ذمہ داریاں قبول کرنے کا کلچرپروان نہیں چڑھ سکا۔اس تناظر میں اگر معاشرے میں اسلحہ کلچر کے فروغ پربات کی جائے تو ہمیں اس حوالے سے بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملیں گی۔جہاں تک پشاور کو اسلحے سے پاک کرنے کے حوالے سے خیبرپختونخوا پولیس کی کاوشوں اور انکے عزم لکاتعلق ہے وبظاہرتو ً ایک مستحسن قدم ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پشاور کو اسلحے سے مستقل پاک کرنے کیلئے کیا ایک محدود مہم نتیجہ خیزثابت ہوسکتی ہے جس کاجواب یقیناًنفی میں ہوگا۔پشاور اوراس کے گرد نواح میں جرائم کے پیچھے اصل محرک اور وجہ غیر قانونی اسلحہ کی فراوانی اور اس کی کھلم کھلانمائش اور استعمال ہے جس سے شاید کسی کو بھی انکار نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اسلحہ سے پاک معاشرہ تشکیل دیکرہم اپنی آئندہ نسلوں کے لئے ایک نسبتاً بہتراورپرامن معاشرے کی بنیاد رکھنے میں بھی کامیاب ہوسکیں گے۔