123

پاکستان ریلوے کی کہانی

دنیا بھر میں ریل گاڑیوں کے نظام کو آئے تقریباً دو صدیاں ہوچکیں، جارج اسٹنسن نے پہلا انجن بنایا تھا، یورپ میں غالباً 1820 میں ریلوے وجود میں آگئی تھی، جب کہ برصغیر میں اس کا آغاز 1840 یا 1850 میں ہوگیا تھا۔ 1861 میں پہلی مرتبہ دریائے سندھ کے بیچ میں سے کوٹری تا کیماڑی تک ریلوے ٹریک بچھا دیا گیا، جب بھاپ آگ اور کوئلے سے چلنے والے انجن لوکو اسٹیم انجن کہلاتے تھے۔

یوں ریلوے دنیا بھر میں چلنا شروع ہوگئی تھی۔ ماسوائے مشرق وسطیٰ یا عرب ممالک کے، خیر یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ ہم صرف پاکستان ریلوے کا ہی ذکر کریں گے جو ہمیں تقسیم ہند کے بعد ورثے میں بنا بنایا، ایک ادارہ ملا تھا۔ اس وقت ریلوے کے پاس 850 ریلوے اسٹیشن تھے اور 100 ہالٹ اسٹیشن تھے بعد میں 1978 تک 880 اسٹیشن اور 110 ہالٹ اسٹیشن ہوگئے تھے۔ جو لنڈی کوتل تا زاہدان تک پھیلے ہوئے تھے، ریلوے میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ ملازمین کام کرتے تھے۔

مغل پورہ ورکشاپ میں بڑی بڑی ورکشاپس موجود تھیں جن میں 40 ہزار ملازمین کام کرتے تھے جہاں سوئی دھاگے سے لے کر درزی خانہ یونیفارم بنانے کے لیے اور پرنٹنگ پریس کے ساتھ ساتھ کیرج شاپ، لوکو ورکشاپ، پاور ہاؤس، اسٹیل شاپ، جنرل اسٹور سمیت 11 سو سے زائد انجن، ہزاروں کی تعداد میں پسینجر کوچز اور اسی طرح ہزاروں کی تعداد کی تعداد میں گڈس (فریٹ) مال گاڑیوں کے ڈبے موجود تھے۔

12600 ٹریک کلومیٹر یا پھر 12700 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ریلوے لائن سمیت برانچ لائن بھی موجود تھیں۔ دوسری جانب ملک بھر میں ریلوے اسپتال، ڈسپنسریاں، ریلوے کلب، ریلوے اسکول، ریلوے گراؤنڈ، اسپورٹس گراؤنڈ، والٹن کا ریلوے ٹریننگ اسکول، ریلوے سیلون، 70 ہزار ریلوے ملازمین کے کوارٹرز، ریسٹ ہاؤسز، ڈاک بنگلے، ریلوے ہیڈ کوارٹرز کی مضبوط عمارت، ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کی مضبوط بلڈنگیں و دیگر دفاتر۔ ملک میں پھیلی ہوئی بے پناہ زمین تھی۔

ساتھ ہی بہترین کاریگروں کے ساتھ یہ مکمل ادارہ مل گیا تھا۔ جس کے اپنے وسائل تھے نہ کوئی قرضہ نہ کوئی خسارہ۔  میرا ریلوے سے گہرا تعلق رہا ہے 40 برس تک ریلوے میں ملازمت کی بحیثیت ریلوے اسٹور، بکنگ کلرک، ریزرویشن کلرک اور پھر اسپیشل ٹکٹ ایگزامنر یا TTE ۔ میری پیدائش کراچی سٹی ریلوے کالونی میں 1945 میں ہوئی، میرے والد کراچی میں 1940 میں ریلوے ملازم ہوگئے تھے۔ ریلوے کالونی ہی میں ملازمین کے اہل خانہ کے لیے سستے راشن کارڈ ڈیپو، ڈسپنسری اور اسکول بھی موجود تھا۔ عرض یہ ہے کہ ایک بڑا اچھا اور فعال ادارہ تھا۔ ملازمین بھی خوشحال تھے اور ادارہ بھی خوشحال تھا۔

ٹرینیں وقت پر آتی اور جاتی تھیں، اس دور میں ریلوے میں تھرڈ کلاس، انٹر کلاس، سیکنڈ کلاس، فرسٹ کلاس اور 2 ٹرینوں میں اے سی کے سفید رنگ کے ڈبے جن میں خیبر میل پشاور تک جاتی تھی اور بولان میل کوئٹہ تک جاتی تھی۔ ان ڈبوں کے سائیڈ میں برف کی بڑی بڑی سلیں ڈالی جاتی تھیں اور ہر بڑے اسٹیشن پر بھی بار بار ڈالی جاتی تھی۔ ایک سرونٹ کا ڈبہ بھی ہوتا تھا۔ یہ ادارہ 1975-76 تک منافع میں چل رہا تھا۔ اس کا بجٹ ملکی بجٹ سے الگ ہوتا تھا۔

ریلوے کا ایک وزیر ہوتا تھا، جب کہ پورے ملک کو چلانے کے لیے لاہور ہیڈ کوارٹر میں ایک وائس چیئرمین ہوا کرتا تھا، بعد کے حالات میں تبدیلی آئی، ایک ڈویژن سکھر کا اضافہ کردیا گیا، پھر ضیا الحق کے دور میں پشاور ڈویژن بنایا گیا۔ اس طرح ریلوے کے 7 ڈویژن ہوگئے۔ کراچی، سکھر، کوئٹہ، ملتان، لاہور، راولپنڈی اور پشاور ڈویژن اور اب 9 ڈویژن ہوگئے۔

ریلوے ہیڈ کوارٹرز ڈویژن مغل پورہ ورکشاپ ڈویژن پہلے سے موجود تھا۔ اس طرح افسران کی فوج ظفر موج میں 50 فیصد اضافہ ہوگیا۔ ملازمین کی تعداد گھٹ کر آج کے دور میں آدھی سے بھی گھٹ کر 64 ہزار رہ گئی ہے، پہلے ملک بھر میں 350 مسافر ٹرینیں چلتی تھیں اور 30 سے 40 گڈس فریٹ ٹرینیں چلتی تھیں۔ صرف کراچی سے 15 سے 18 گڈز ٹرینیں جس میں 65 تا 72 مال گاڑی کے ڈبے لگتے تھے۔ ریلوے کی آمدنی کا زیادہ تر انحصار مال گاڑی کی آمدن سے ہوتا تھا۔

اس ٹریفک کو سب سے پہلے ضیا الحق کے دور میں نقصان پہنچایا گیا۔ ریلوے کے گڈز ٹریفک کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور رفتہ رفتہ بیرونِ ممالک سے بحری جہازوں کے ذریعے آنے والے گڈز فریٹ کو پرائیویٹ ٹرانسپورٹر کے حوالے کر دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ایسٹ وہارف اور ویسٹ وہارف سے ریل کی پٹریاں ہی اکھاڑ دی گئیں۔

اس کے بعد ہر آنیوالی حکومت نے بھی ریلوے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا اور ریلوے کو تباہی کی جانب دھکیل دیا گیا اور آج اس کو نجکاروں کے حوالے کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے بلکہ یہ عمل جاری ہے۔ اس سے قبل پرویز مشرف کی حکومت میں ریلوے کا مزید بیڑا غرق کر دیا گیا۔ ریلوے کوچز اور انجنوں کا سودا چین سے کیا گیا، بھاری کمیشن کھایا گیا، ناکارہ انجن اور ڈبے خریدے گئے، کیرج ورکشاپ لاہور، کیرج فیکٹری اسلام آباد جہاں اچھے اور معیاری کوچز تیار ہوتے تھے وہاں کام بند کروا دیا گیا۔ 69 انجن لیے گئے، 2 سال میں 40 انجن خراب ہوگئے اور اب کوچز بھی خراب ہو رہے ہیں۔

کاریگر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے، ریلوے کی زمینیں فروخت کی گئیں، ریلوے کلب ٹھیکے پر اپنے من پسند دوستوں کو دیے گئے، ریلوے ہاسٹل فروخت کردیے گئے، اسی طرح ریلوے اسکول اور ریلوے اسپتال فروخت کیے گئے۔ یہ روپیہ کہاں گیا؟ مقدمات چل رہے ہیں۔ اب ریلوے مزید بحران کا شکار ہے۔

ریلوے انجنوں کی کمی ہے۔ ریلوے کوچز کی کمی ہے، پاور پلانٹ کی کمی ہے، پچھلی تمام حکومتوں نے ریلوے کے بارے میں کچھ کام نہیں کیا، سوائے خواجہ سعد رفیق وزیر ریلوے نے ریلوے کو بہتر کرنے پر خصوصی توجہ دی۔ عمران خان کی حکومت نے مزید بیڑہ غرق کر دیا تھا، اب ملکی حالات بڑے خراب ہو رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی لڑائی جاری ہے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، غربت، جہالت، بیماری اور نج کاری نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔

ورلڈ بینک آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت ملک قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ڈیزل، پٹرول، تیل، گیس، بجلی کے نرخوں سمیت تمام کھانے پینے کی اشیا غریب عوام کے لیے ایک عذاب بنے ہوئے ہیں، عمرانی حکومت نے اداروں کو آپس میں لڑا دیا ہے، انصاف کی عدالتوں میں بھی انصاف کی محاذ آرائی جاری ہے ،کچھ لیڈر ملک کے دیوالیہ ہونے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن پر اعتراضات ہو رہے ہیں، قومی اداروں خاص کر پاکستان اسٹیل، پی آئی اے، ریلوے اور گیس کمپنیوں کو بھی نج کاروں کے حوالے کرنے کا پروگرام بن رہا ہے۔ خدارا حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا ہو گا، معیشت کو بہتر کرنا ہوگا، اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا۔