52

مذہب کی آ ڑ میں سیاست کرنے والا دو نمبر یا رونگ نمبر ہوتا ہے ،انجینئر محمد علی مرزا کی پیشگوئی ۔

 عبدالستار

گزشتہ دنوں انجینئر محمد علی مرزا نے حالات حاضرہ پر کچھ سخت باتیں کیں اور سیاست کی مجموعی صورتحال پر ایک واضح موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ جو سیاستدان بھی چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو اگر وہ اپنی سیاست کو مذہبی رنگ یا ٹچ دینے کی کوشش کرتا ہے تو سمجھ لیں کہ وہ بندہ آپ کے ساتھ دو نمبری کر رہا ہے۔ نیب کے ٹھرکی بابا کے حوالہ سے کہا کہ اس قسم کے بدکردار شخص کو ایک ایسے بندے نے گود لے رکھا تھا جو اس ملک کو ریاست مدینہ بنانے کا دعویدار تھا، اس کے پیچھے مقصد صرف ایک تھا کہ مخالف جماعتوں کے لوگوں کو پابند سلاسل کر کے ذلیل و رسوا کیا جائے۔ اب وہ تمام خواتین ایک ایک کرکے سامنے آرہی ہیں جن کے ساتھ اس ٹھرکی بابے نے اپنی ہوس پوری کی۔ بصد احترام گذارش یہ ہے کہ 1947 سے لے کر آج 2022 تک کی ملکی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو واضح ہوجائے گا کہ اس ملک کے ساتھ کھلواڑ مذہب کے نام پر ہی کیا جاتا رہا ہے اور یہ رسم ابھی بھی جاری ہے۔ مذہبی ٹچ دینے والوں کی فہرست بہت طویل ہے اور اس کے تانے بانے بہت دور تک جاتے ہیں، مرزا صاحب حوصلہ پیدا کریں اور پورا سچ بولنے کی جرات کریں نا کہ مخصوص سچ پر اکتفا کریں۔ ہماری ناقص رائے کے مطابق شاید یہ ملک بھی مذہب کے نام پر حاصل کیا گیا تھا مجموعی تاثر یہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایک ایسی لبارٹری بنانے جا رہے ہیں جہاں ہم آزادی سے اپنے مذہبی اصولوں کو اپلائی کر کے مسلم امہ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکیں کی مگر اس تجربہ گاہ کا مجموعی نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے، دنیا 13 ارب سال پہلے کی دنیا میں غوطہ زن ہو چکی ہے اور ہم ابھی بھی نت نئے تجربات کرنے یا مذہبی ٹچ دینے میں مصروف ہیں۔ کڑوی حقیقت یہی ہے کہ"مذہبی ٹچ" اس ملک کی بنیادوں میں شامل ہے جس کا ثبوت ہم نے آغاز میں ہی قرارداد مقاصد کی صورت میں دے دیا تھا۔ ترجیحات کا فرق ہوتا ہے کہ ایک ہی دن آزاد ہونے والا ہمارا پڑوسی آئین سازی میں مصروف ہو چکا تھا تاکہ ملک کی سمت کا تعین ہو سکے اور اور ہم سے بہت پہلے اپنے عوام کو ایک سیکولر  آ ئین کا تحفہ دے چکے تھے مگر ہماری قوم کو اس متفقہ آئینی تحفہ کے لئے 1973 تک طویل انتظار کرنا پڑا۔ ایک متفقہ آئین ملنے کے بعد بھی اس بچارے کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اس کی ایک پوری تاریخ ہے، کہنے والوں نے تو اسے محض کاغذ کا ایک ٹکڑا تک کہہ ڈالا۔ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جو آج تک اپنی سمت کا تعین نہ کر سکے اگر کوئی واضح سمت متعین ہوتی تو سابق وزیراعظم کو 2022 میں یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آتی کہ ہم "اسے ریاست مدینہ بنائیں گے" مطلب جو ہم نے حتمی طور پر بننا ہے اس کا ہمیں خود بھی ادراک نہیں ہے مگر اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ "مذہبی کارڈ" اس ملک کی رولنگ ایلیٹ جو مستقل طور پر حکمران طبقہ کے اہم اسٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں جن میں مذہبی ایلیٹ بھی شامل ہوتی ہے کے ہاتھوں میں ایک ایسا معجزاتی ہتھیار ہے جس کے ذریعے ہر قائم ہونے والی حکومت سے اپنے حصے کا تاوان وصول کرکے ایک ایسی ماورائی طاقت کے مالک بن چکے ہیں جسے یہ بھولے بھالے عوام کبھی بھی چھو نہیں سکتے، اسی لیے یہ رولنگ ایلیٹ مذہبی نعروں سے بہلا پھسلا کر اس قوم کو بیوقوف بناتے رہتے ہیں تاکہ یہ جذباتی قوم مذہبی سرکل میں الجھی رہے اور ہم دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے رہیں۔ اس کے علاوہ علی مرزا نے اپنے سٹوڈنٹ عمران ریاض خان کی بھی خوب دھلائی کی اور واضح طور پر کہا کہ یہ وہ بندہ ہے جو پیکا جیسے کالے قانون کی حمایت کرتا رہا اس کے علاوہ ابصار عالم، مطیع اللہ جان اور حامد میر جیسے دبنگ صحافیوں پر ہونے والے مظالم پر ٹھٹھے اڑاتا رہا اور اس کے علاوہ نیب کے ٹھرکی بابا کی حمایت میں وی لاگ کیا کرتا تھا۔ اس لئے آج عمران ریاض خان کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ مکافات عمل ہے جو انہوں نے بویا ہے وہی انہیں اپنے ہاتھوں سے کاٹنا پڑ رہا ہے۔ بصد احترام  مکافات عمل کی اصطلاح ہمیں تو ذومعنی سی لگتی ہے بالکل اسی طرح سے جس طرح ٹمی کو راؤنڈ بنانے والے خداوندان زمین نے اس اصطلاح کی بنیاد رکھی تھی کہ "پیسے والوں کی زندگی میں سکون نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی" ہماری یہ رائے ہے جو کہ غلط بھی ہو سکتی ہے، ہمیں ایسا لگتا ہے کہ مکافات عمل کا صیغہ بھی طاقتوروں کے ہاتھ میں ایک کھلونا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مکافات عمل کے  پیمانے وطن عزیز میں یکساں کیوں نہیں ہیں؟ یہ پیمانے عمران ریاض خان، عمران خان،محسن داوڑ یا علی وزیر کے لئے مختلف کیوں ہیں؟ حالانکہ فین کلب کا لاڈلا تو درجنوں بار ریڈ لائن بھی کراس کر چکا ہے اور قانون کی گرفت سے کوسوں دور ہے۔ ہم سادہ لوح عوام اس حقیقت سے آگہی چاہتے ہیں کہ مکافات عمل آ خر کس چڑیا کا نام ہے؟  یہ ہمیشہ ان لوگوں کے ساتھ ہی کیوں پیش آ تا ہے جو پہلے ہی کسمپرسی کی آخری سطح کو چھو رہے ہوتے ہیں؟ صاحب اختیار و اقتدار یا زمینی نعمتوں پر بلا شرکتِ غیرے قابضین کے سامنے ایک حسین وجمیل متبادل یا ریلیف کی صورت میں کیوں آتا ہے؟ غریب کے لیے مکافات عمل اس کے گلے کا پھندا اور زمینی وسائل پر قابضین کے لیے گلے کا ہار آخر یہ گورکھ دھندہ کیا ہے؟ اگر یہی دنیا کا اسٹینڈرڈ اصول یا پیمانہ  ہوتا پھر تو امریکہ کو اب تک تباہ و برباد ہو جانا چاہیے تھا، چونکہ اس کی گردن پر کروڑوں انسانوں کا مالیاتی استحصال ہے مگر صاحب بہادر تو دنیا کے امام بنے بیٹھے ہیں۔ مرزا صاحب بصد احترام آپ کے خیالی پنڈورا باکس میں بھی پاکستان کے آئین کی طرح ان گنت سقم یا "فل ان دی بلینک جتنی سپیس یا گنجائش موجود رہتی ہے جسے کوئی بھی کبھی بھی اپنے مطلب کے مفاہیم کو فٹ کر کے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکتا ہے۔ یہ آ پکی ساری مذہبی کلاس یا روایتی فکر کا المیہ ہے مگر آ پ اس فکری خلا کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں یا شاید آ پ کے ایمانیات کا بنیادی تقاضا ہے۔  کائناتی اصول یا زمینی حقائق تو مکافات عمل کی کوئی اور ہی توجیہ پیش کرتے نظر آتے ہیں جس کا سادہ لفظوں میں مفہوم کچھ یوں بنتا ہے "مائٹ از رائٹ"۔قدرتی ڈیزائن میں بھی وہی خلیہ سروایو کرتا ہے جو سب سے طاقتور ترین ہوتا ہے کمزور ترین خلیے بغیر کسی بیرونی مداخلت کے خود بخود ختم ہو کر قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔ مکافات عمل کا یہ چکر کہیں زمینی خداؤں کی کارستانی تو نہیں ہے؟ آخر میں آپ کے طبقے کے حوالے سے کچھ سوالات ہیں امید ہے کہ آپ ان پر غور فرمائیں گے۔ اگر مکافات عمل ایک حقیقت ہے تو مذہبی فکر اس سے بے نیاز کیوں ہے؟ اگر واقعی یہ حقیقت ہے تو قدرت یعنی خدا کے قرب کا دعوی رکھنے والے اتنے بے حس اور دولت کے حصول کے لیے انتہائی سطح پر بے چین کیوں رہتے ہیں؟ قدرتی رازوں کا اپنے قلوب پر ڈائریکٹ ظہور پذیر ہونے کا دعوی رکھنے والے روحانی پیشوا پانچ قیراط کے ہیرے کی انگوٹھی کے محتاج کیوں ہوتے ہیں؟ بڑے بڑے روحانی پیشوا یا درباروں کے گدی نشین کاروبار گلشن چلانے کے لیے نذرانوں یا تحائف کے محتاج کیوں ہوتے ہیں؟ یہ کچھ بنیادی نوعیت کے سوال ہیں امید ہے آ پ ہماری رہنمائی فرمائیں گے ۔ کیونکہ آپ اکارڈنگ ٹو بک چلنے کا دعویٰ رکھتے ہیں اگرچہ ہمیں آ پ کے اس دعویٰ پر بھی درجنوں تحفظات ہیں وہ پھر کبھی سہی فی الحال اتنا ہی کافی ہے ۔