102

مثالی معاشرے کی خوشبو

حکیم سید محمد محمود سہارنپوری

تقدیر کے پابند ہیں نبادات ' جمادات
مومن فقط احکام الہیٰ کا ہے پابند
شاعر مشرق مومن کی شان اور حشمت بیان کرتے ہوئے بندے اور خالق کے لازوال تعلق کا اعادہ کررہے ہیں۔ حقوق العباد کا تحفظ بھی بندے اور معاشرے کا تعارف سمجھا جاتا ہے اور جن سماج میں حقوق وفرائض کی شمع فروزاں ہو یا ان معاشروں کو مہذب ' قابل رشک اور مثالی سوسائٹی کا تاج پہنایا جاتا ہے۔ یہ وہ معاشرے ہیں جو فراہمی انصاف' نظم وضبط' تہذیب وترتیب اور پابندی وقت جیسی خوبیوں سے مرقع ہوتے ہیں ۔علم عرفان اورروحانیت کے حوالے سے ملک گیر شہرت کی حامل رہنماء قاری یسین بتا رہے تھے کہ پاکستانی معاشرہ کو اصلاح کی  چھتری دینے والے علماء ومشائخ' اساتذہ کرام اور والدین نے اپنی ذمہ داریوں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ درسگاہ' دانش گاہ سے کھیل کے میدان تک' مساجد اور خانقاہوں سے ہسپتالوں تک' بازاروں اور مارکیٹوں سے  زمینی اور فضائی سفر تک دستر خواں سے یوٹیلیٹی سٹور اور شادی بیاہ کے کھانوں تک کون سی ایسی جگہ ہے جہاں ہماری اعلی اقدار کی جھلک نظر آتی ہے۔ اگر ٹریفک کا نظام مہذب ہونے کی دلیل ہے تو ہم اس نظام میں بہت پیچھے ہیں۔ دستر خواں میں قناعت اورسادگی ہمارے اسلاف کی پہنچان رہی تو ہم اس اوصاف کے امین نہیں رہے۔ اگر احساس مروت کبھی ہمارا سرمایہ رہا تو ہم اب اس کے امانت دار نہیں رہے۔ اگر کبھی وقت کی پابندی قائدین کا شیوہ رہا تو ہم نے وقت کی اس دولت کو اپنے گھر کی لونڈی بنا ڈالا۔ پروگرام ،تقریب ' مجلس اور ایونٹ کی نوعیت کوئی بھی ہو ہماری شرکت ہمارے وقت کے مطابق ہوتی ہے۔ ہم نے وقت اور نظم وضبط کو غیر ضروری اور غیر اہم سمجھا اور سمجھ رہے ہیں۔ بات چیت اور تقریب کے دوران فون کال اٹینڈ کرنا اپنا استحقاق سمجھا جاتا ہے ۔ قاری یسین بتا رہے تھے بلکہ سمجھا رہے تھے  کہ [پابندی وقت، ڈسپلن ' برداشت اور ڈائیلاگ کی خوبیاں بڑھانے کی بجائے ہم نے معاشرے' حلقہ احباب اور خاندانوں کو تنگ نظر اورافراتفری سے بھرپور کر ڈالا۔ آج ذرا ذرا سی بات پر جھگڑا' تلخی اور تناؤ ہمارے رویوں کی ہی ''برکات'' ہیں۔ حضرت واصف علی واصف فرماتے ہیں بلند کردار کے لوگ ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں جبکہ چھوٹے کردار کے افراد بحث اور جھگڑا کرتے ہیں۔ ہم نے بچوں کو خاموش رہنا، دلائل سے بات کرنا اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا درس دیا ہی نہیں۔ معمولی نوعیت کی باتوں پر تنازعہ اور دست وگربیاں ہونا یہاں تک کے خون کا پیاسا بن جانا بیمار معاشرے کی نشاندھی کرتا ہے۔ دو روز قبل حافظ آباد کے دیہی علاقے میں بچوں کی لڑائی میں بڑوں کا شامل ہونا اور چار افراد کی زندگی کا چراغ گل ہو جانے کو کیا نام دیا جائے گا؟منڈی بہاؤالدین میں 200 روپے کی خاطر ایک شخص کا قتل چیخ چیخ کر ''بڑوں'' کو ان کی مجرمانہ خاموشی پردھائی دے رہا ہے…
حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی نے حضور کریم ۖ کی خدمت میں عرض کیا مجھے وہ چیز بتائیں جسے میں مضبوطی سے تھام لوں آپ ۖ نے فرمایا کہو میرا رب اللہ ہے پھر اس پر ثابت قدم رہو، میں نے عرض کیا  یا رسولۖ اللہ وہ کون سی چیز ہے جس سے مجھے سب سے زیادہ خوفزدہ رہنا چاہیے  آپ ۖ نے فرمایا زبان ۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ صرف بے قابو زبان کی وجہ کتنے فتنہ فساد پیدا ہوتے ہیں. روزمرہ کے معمولات  میں سے بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ دوستوں کے درمیاں گپ شپ  سے آغاز تو تکرار اور قتل و  غارت تک پہنچ جاتا ہے. صرف زبان درازی کی سبب انسانوں کے درمیان نفرت اور کدورت کی دیواریں قائم ہو جاتی ہیں .مناسب اور معقول بات یہ تھی کہ مسلمان ایک دوسرے کیلئے ڈھال بنتے اور ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرتے ایک دوسرے کو سر بازار رسوا نہ کرتے۔  قرآن حکیم میں فرمایا گیا ہے اپنے عیوب بیان نہ کرو۔ظاہر ہے اپنا عیب تو کوئی بیان نہیں کرتا ہے۔  قرآن پاک نے نہایت حکیمانہ انداز میں تعلیم فرمایا ہے. ہم دوسرے شخص کے عیب بیان کریں گے وہ بھی تو ہمارا دینی بھائی ہے اور اس کی عزت کی حفاظت بھی ہماری ذمہ داری ہے احادیث میں ہے کہ نبی اکرم ۖ نے فرمایا  کہ جس نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو چھپایا اللہ  قیامت کے دن اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا اور جس مسلمان نے اپنے بھائی کے عیب کی پردہ دری  کی تو قیامت کے دن اللہ  تعالیٰ اس کے عیب کس پردہ فاش کرے گا حتی کے اسے اپنے گھر میں رسوا کرے گا ۔جو کسی مسلمان کی ایسی برائی بیان کرے جو اس میں  نہیں پائی جاتی اللہ تعالیٰ اسے اس وقت  تک ردغتہ الخبا ل میں رکھے  گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہو جائے رغبتہ  الخبال  جہنم کی اس وادی کوکہتے ہیں جس میں جہنمیوں کاپییپ اور خون جمع ہوتا ہے.  معراج النبی  ۖ کے موقعہ پر رسول کریمۖ  کا گزر ایک چھوٹے کے پتھر کے پاس ہوا جس سے روشنی نکل رہی تھی . آپۖ نے دیکھا اس سے ایک بیل نکلا پھر وہ اسی سوراخ سے واپس جانا چاہتا تھا مگر داخل  نہیں ہو سکتا تھا آپ ۖ نے جبرائیل سے پوچھا یہ کیا ہے؟ یہ اس شخص کی مثال ہے جو بلا سوچے سمجھے بات کر لیتا ہے پھر اس پر نادم ہو کر اسے واپس لینا چاہتا ہے مگر ایسا کبھی نہیں کرسکتا ہے ۔ہم آئے روز لوگ بیان دیتے ہیں جب اس کا رد عمل سامنے آتا ہے تو کہ دیتے ہیں میرے بیان کو غلط سمجھایا میرامقصد یہ نہیں تھا.حضرت عبداللہ  بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ہم رسولکریم ۖ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے آپ ۖ نے فتنے کا ذکر کیا  فرمایا جب تم  دیکھو لوگوں کی زبانیں دوسروں کی آبرو کو پامال کر رہی ہیں اور امانتوں  کی حفاظت کو ہلکا سمجھ رہی ہیں آپ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ملا کر فرمایا  اس طرح( متحد) ہو جائیں ۔یہ درست ہے کہ معاشرے روایات سے بنتے ہیں اور روایات میں جب تک برداشت اور خدمت وسیادت کے گلاب شامل نہ ہوں تو معاشرے کھوکھلے رہتے ہیں۔ ہمیں قاری یسین کی بات سے سو فیصد اتفاق ہے کہ سماج کو زندہ ومثالی  بنانے کے لیے علماء کرام' مشائخ عظام' اہل ودانش، اہل بصیرت' اساتذہ کرام اور والدین کو ''بیدار'' ہونا پڑے گا۔