52

میاں راجا پکسے شریف زرداری

حیران کُن طور پر جنوبی ایشیا خاص طور پر پاکستان اور سری لنکا جیسے ممالک میں صلاحیت پرستی کے بجائے شخصیت پرستی کا رجحان ہے باوجود اس کے کہ اس پرستش نے کرپشن، بد عنوانی، انتشار اور معاشی بدحالی کے سوا کچھ نہیں دیا پھر بھی شخصیت پرستی کی جڑیں سکڑنے یا کمزور ہونے کی بجائے مزید گہری اور مضبوط ہوتی چلی جا رہی ہیں  

فرق محض اتنا ہے کہ سرلنکا میں ان مضبوط جڑوں والے تنا ور درخت پر راجا پکسے خاندان کی اجارہ داری ہے جب کہ پاکستان میں شریفوں اور زرداریوں کی

اب سوال یہ ہے کہ سری لنکا میں بات اس نہج تک کیسے پہنچی کہ دنگے، فساد، املاک کو نقصان اور راجا پاکسے خاندان کے گھروں کا جلاؤ گھیراؤ ہو رہا ہے اور اس نہج تک پہنچانے والے عناصر یا مہرے کون سے ہیں؟

اگر راجا پاکسے اور شریف خاندان کو دیکھیں تو دونوں خاندانوں کے ایک ایک بھائی نے سیاست میں قدم رکھا اور تھوڑا عرصہ گزرنے کے  بعد اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی مدعو کیا کہ وہ سیاست میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں اور یوں پھر ان کے بیٹے اور باقی رشتے دار اقتدار پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے لگے

راجا پاکسے جب صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے دفاع اور فنانس کے علاوہ چار ایسی وزارتیں اپنے پاس رکھیں جن سے اٹھہتر حکومتی ادارے ان کے کنٹرول میں آ گئے

 

ان کے بھائی گوٹا بایا راجا پاکسے کو دفاع کا سیکٹری، فوج اور پولیس کی نگرانی اور ترک وطن اور زمینی معاملات دیکھنے کی ذمہ داری  سونپی گئی یہی وجہ ہے کہ انہیں سری لنکا کا طاقتور ترین انسان بھی کہا جاتا ہے

ان کے بھائی باسِل راجا پاکسے کو معاشی ترقی کی وزارت کا قلمدان دیا گیا جس میں انویسٹمنٹ اور سیاحت کی پرموشن کے ادارے بھی شامل تھے

اپنے بھائی چمل راجا پاکسے کو پارلیمنٹ کا اسپیکر بنا دیا تاکہ  کوئی بھی جب صدر کو امپیچ کرنے کا سوچے تو اس پراسیس کو شروع ہونے سے پہلے ہی مہندرا راجا پکسے کے بھائی اسپیکر ہونے کی حیثیت سے رٙد کر دیں

چمل کے بیٹے ششندرہ کو ایک صوبے کا وزیر اعلی بنا دیا گیا 

مہندرا راجا پاکسے نے اپنے سب سے بڑے بیٹے نمل راجا پاکسے کو پارلیمنٹ کا ممبر بنانے کے علاوہ مجموعی طور پر تقریبا اپنے ایک سو تیس رشتے داروں کو حکومتی عہدے دیے

اگر ہم شریف خاندان کو دیکھیں تو بڑے میاں وزیراعظم تھے تو چھوٹے میاں وزیراعلی ان کے رشتے دار اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ اورعابد شیر علی کو بھی ایک اہم  وزارت کا قلمدان سونپا گیا 

جب بڑے میاں کو نااہل قرار دیا گیا تو چھوٹے میاں وزیراعظم بن گئے ہیں اور ان کے بیٹے وزیراعلی ہیں 

زرداری خاندان بھی ایک عرصے سے پاکستان بالخصوص سندھ میں اپنی سلطنت قائم کیے ہوئے ہے اور سٹی آف لائٹ کو سٹی آف ڈارک بنانے کے لیے دن رات محنت کر رہا ہے اور یقینًا اس محنت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا 

ان دونوں خاندانوں کی دو خواتین کا ذکر ایک الگ پیراگراف میں کرنا ہی مناسب ہے  

سندھ میں ایک محترمہ فریال تالپور ہیں جن کے پاس کوئی بڑا حکومتی عہدہ تو نہیں ہے لیکن سندھ میں ہوتا وہی ہے جو منظورِ فریال تالپور ہوتا ہے باقی مریم بی بی کو آپ شریف خاندان کی فریال تالپور ہی سمجھ لیں

اللہ نہ کرے کے پاکستان کی صورتحال بھی سری لنکا کی طرح ہو لیکن زمینی حقائق تو چیخ چیخ کر یہی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان بھی شریفوں اور زرداریوں کی قیادت میں سری لنکا کی راہ پر گامزن ہے 

معاشی بدحالی کو دیکھتے ہوئے دونوں ممالک کے وزیرِ خزانہ کو خصوصی اختیارات دیئے گئے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کریں لیکن اس دفعہ آئی ایم ایف بھی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ضدی معشوق بن گیا ہے پر سیلوٹ ہے دونوں ممالک کے وزیرِ خزانہ کو جو معشوق سے مکالمے میں بار بار اس بات کو دہرائے جا رہے ہیں کہ۔۔۔ 

"تیرے دٙر پر صنم ہزار بار آئیں گے"

اب سری لنکا میں تو عوام نے صبر کا دامن چھوڑ دیا ہے اور سڑکوں پر آ گئے ہیں جس کی وجہ سے وہاں پر استعفوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن پاکستان میں مجھے نہیں لگتا ایک عرصہ سے کرسی کی پرستش کرنے والے اور اس کے پیروکار اسے اتنی آسانی سے چھوڑیں گے کیونکہ ابھی تو آئی ایم ایف اور چین نے بھی قرضوں کی برسات کرنی ہے 

اب زرداریوں اور شریفوں کے منہ سے یہ شعر تو بنتا ہے کہ۔۔۔۔

‏کب سے ٹہل رہے ہیں، گــریبان کھــول کر 

خالی گھٹا کو کیا کریں، برسات بھی تو ہو 

نوٹ:  اس شعر میں شاعر حکومتی اتحاد کے پاس پیسے کم ہونے کو خالی گھٹا اور قرضوں کو برسات کہہ رہا ہے، اور بلاشبہ یہ خاندان برسات کے بعد اقتدار کے سہانے موسم کو انجوائے کرنا چاہیں گے نہ کہ اسے چھوڑنا جیسا کہ وہ کئی دہائیوں سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔