معروف براڈ کاسٹر رضاعلی عابدی ایک پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سلطانہ باجی عرف سحاب قزلباش ریڈیوپاکستان کے ڈراموں کی مشہور صداکارہ تھیں۔ میں تو انہیں بچپن سے سنتا آرہا تھا۔جب وہ آزادی سے پہلے آل انڈیا ریڈیو‘ دہلی کے بچوں کے پروگرام میں شریک ہوا کرتی تھیں۔بڑی ہوکر وہ ڈرامہ آرٹسٹ بنیں اور مجھے کراچی ریڈیو کے جشن تمثیل کا ڈرامہ”غبارہ“ یاد ہے جو شوکت تھانوی مرحوم نے لکھا تھا جس کا منظر یہ تھا کہ سحاب ایک راکٹ میں بیٹھ کر خلا ء میں چلی جاتی ہیں جہاں ان پر دہشت طاری ہوتی ہے۔ وہ اپنے وائرلیس پر چیختی چلاتی ہیں اور زمین پر ان کے اباجان (خودشوکت تھانوی) اسی وائرلیس پر انہیں مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔کچھ ایسی ہی صورتحال اس روز شاہین کلب میں تھی۔ اس کے کچھ روز بعد مجھے کراچی جانے کااتفاق ہوا‘ میں اپنے دوست افضال شیروانی کے گھر کھانے پر مدعو تھا‘ہم دونوں دوست برآمدے میں بیٹھے باتیں کررہے تھے اور افضال کی بیگم اندر باورچی خانے میں توے پر چپاتی ڈال رہی تھیں‘ کسی بات پر میں نے قہقہہ لگایا تو وہ چپاتی ہاتھ میں لئے باہر آئیں اور بولیں ”اب یقین آگیا‘ شاہین کلب میں وہ قہقہے مصنوعی نہیں ہوتے‘ بی بی سی والے جو سروے کراتے تھے‘ ان میں چونکہ صرف بالغوں کو شمار کیا جاتا تھا‘ اس لئے یہ تو پتا نہ چل سکا کہ سامعین میں بچوں کی تعداد کتنی ہے لیکن اب اتنے زیادہ بڑے بھی شاہین کلب سننے لگے تھے کہ مجموعی تعداد میں بھاری اضافہ نظر آنے لگا‘ اس پروگرام نے لوگوں کوبہت محظوظ کیا جس میں سدھو بھائی کے دادا حضور کی سوویں سالگرہ ہو رہی تھی اور اس موقع پر کاٹنے کیلئے جو بڑا سا کیک بنوایاگیا تھا اس پر پوری ایک سو شمعیں روشن کی گئیں اور دادا ابا سے کہاگیا کہ ان سب کو پھونک مار کر بجھائیں۔ ان بیچارے کے منہ میں ایک بھی دانت نہیں تھا۔ بالکل پوپلے تھے۔ انہوں نے بہت پھونکیں ماریں مگر شمعوں کو نہ بجھنا تھا، نہ بجھیں۔ آخر سدھو بھائی کو ایک ترکیب سوجھی۔ انہوں نے دادا کا منہ شمعوں کے قریب لے جاکر کہا”اب کہیے پھوپھی پھوپھا۔ پھوپھی پھوپھا۔ پھوپھی پھوپھو پھوپھا“ یہی کیا گیا۔ دادا ابا کے پوپلے منہ سے ہوا کے ایسے جھونکے نکلے کہ شمعیں اڑ کر گئیں اور سامنے والی دیوار پر چپک گئیں۔
77