45

مجسم تضادات

پاکستان میں نجی ٹیلی ویژن چینلز متعارف ہونے کے ساتھ طلوع ہونے والے ’عامر لیاقت حسین‘ نے ’تفریحی و معلوماتی پروگراموں‘ کے ذریعے نہ صرف ملکی ٹیلی ویژن پر راج کیا بلکہ اِسی سیڑھی پر چڑھتے ہوئے اُنہوں نے سیاست کے شعبے میں بھی اپنی شخصیت کے سحر اور خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ مجسم تضادات ہونے کے باوجود عامر لیاقت کے منفرد انداز کی وجہ سے اُنہیں دیکھنے اور چاہنے والوں کی تعداد ہمیشہ دیگر ہم عصروں سے زیادہ رہی اور یہی وجہ تھی کہ پچاس سال کی عمر میں اُن کی ناگہانی موت کی خبر نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اہل زبان و فن کیلئے افسردگی کا باعث بنی ہے۔ ٹیلی ویژن میزبانی سے قانون ساز اسمبلی کی رکنیت تک‘ عامر لیاقت کی زندگی اپنے بارے میں تنازعات کو سنبھالنے اور زندگی سنوارنے کی نت نئی کوششوں میں بسر ہوئی۔ اُنہوں نے ایک نہیں بلکہ کئی مرتبہ زندگی کو اَزسرنو زندگی مرتب کیا اور پھر اپنی اِن کوشش میں ناکام رہے جس کی وجہ حد سے زیادہ ’خوداعتمادی‘ تھی جو بالآخر اُن کی ہمت اور اعصابی نظام کو مفلوج کر گئی اور وہ کسی بیماری سے نہیں بلکہ پے در پے ”صدمات“ سے جانبر نہ ہو سکے! اور یہی تھکاوٹ اُن کی زندگی کے آخری چند برس پر حاوی رہی! اُن کا قول تھا ”محبت کرو یا نفرت‘ تم مجھے نظر انداز نہیں کر سکتے۔“
 یہی وجہ ہے کہ اُن کے نقاد بالخصوص سوشل میڈیا کے وہ صارفین جو عامر لیاقت پر تنقید کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے لیکن وہ بھی اُن کے انتقال کی خبر سن کر غمزدہ یا کم سے کم رنجیدہ ضرور ہوئے اور اُن کے تاثرات سے عیاں ہے کہ تفریح کار عامر لیاقت کی کمی شاید کبھی بھی پوری نہیں ہو سکے گی!راقم الحروف کی عامر لیاقت سے پہلی ملاقات ’جیو ٹیلی ویژن‘ کے آغاز سے قبل‘ سال 2000ء کے دوران کراچی کے آواری ہوٹل میں جاری تربیت کے دوران ہوئی۔ عامر لیاقت کو شروع دن سے صحافتی ٹیلی ویژن سے دلچسپی نہیں تھی‘ وہ کوئی بھی ایسا کام کرنا نہیں چاہتے تھے جس سے اُن کی شخصیت گم ہو جائے بلکہ وہ چاہتے تھے اور اُن کی کوشش ہوتی تھی کہ جس محفل یا عہدے پر بھی کام کریں اُس پر سب کی نظریں ہمہ وقت جمی رہنی چاہئیں۔ وہ شروع ہی سے خودپسندی کے قائل تھے جس کی وجہ سے اُن کی شخصیت پر ایک بناوٹی رنگ کبھی کبھار زیادہ حاوی محسوس ہوتا تھا۔ بہرحال عامر لیاقت سے ساری زندگی رابطہ (علیک سلیک) رہی تاہم جس طرح پاکستان کے جملہ ذرائع ابلاغ خیبرپختونخوا کی طرف دیکھتے ہیں اور یہاں کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں بالکل اِسی طرح عامر لیاقت کے لئے بھی خیبرپختونخوا زیادہ اہمیت کا حامل صوبہ نہیں تھا بس اِس کا تذکرہ پاکستان کی جغرافیائی حقیقت کے طور پر کرنے ہی کو کافی سمجھتے تھے۔
 عامر لیاقت کی رحلت سے سوشل میڈیا پر تاثرات کو اگر جمع کیا جائے تو ایک ہزار سے زائد صفحات کی کتاب مرتب ہو سکتی ہے! صارفین کی بڑی تعداد اُن کی ”غلطیوں کو معاف“ کرنے اور ان کی شخصیت کے صرف ”اچھے پہلوؤں“ کو یاد رکھنے کی اپیل کر رہی ہے اور ایسا ہی ہونا چاہئے بالخصوص عامر لیاقت کے پرستاروں یا اُن کے مخالفین کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ زندگی ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ تلخ و شیریں تجربے کرتی ہے لیکن عامر لیاقت وہ شخص تھے جنہوں نے تمام زندگی‘ زندگی ہی کو امتحان میں ڈالے رکھا! وہ ایک کامیاب ”تفریح کار“ تھے لیکن وہ اداکاری میں توازن برقرار نہ رکھ پائے۔ اُن کی میزبانی کا انداز بڑی حد تک مبالغہ آرائی پر مبنی اور متنازعہ رہا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ عامر لیاقت کو اِس بات پر مہارت حاصل تھی کہ وہ کسی بھی عمومی موضوع کے متنازعہ پہلو تلاش کر سکتے تھے ذرائع ابلاغ کے جملہ وسائل ”صحافت“ کی ذیلی و ضمنی شاخیں ہیں اور اِس سائبان کے ذریعے سماج کو اختلافات اور نفرت کی دھوپ سے بچانا ممکن ہے لیکن اگر نیت‘ ارادہ‘ خواہش اور عملاً کوشش جیسی تحاریک موجود ہوں۔ نوجوان نسل کیلئے پیغام ہے کہ اِس سلسلے میں ’رول ماڈل‘ کا انتخاب اور جستجو کیلئے معیار ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی سطحی نہیں بلکہ عمومیت سے ایک درجہ بلند رکھیں تاکہ عملی زندگی کے سفر میں کسی بھی مرحلے پر ”تھکاوٹ کا احساس“ نہ ہونے۔ جان ایلیا کا یہ شعر لائق توجہ ہے ”اے شخص میں تیری جستجو سے …… بے زار نہیں ہوں‘ تھک گیا ہوں۔

  شبیر حسین امام