46

مؤقف میں تبدیلی

مریکہ کے صدر جوبائیڈن کو اقتدار میں آئے قریب ڈیڑھ برس کا عرصہ گزر گیا ہے اور بالآخر بائیڈن انتظامیہ نے چین کے بارے میں اپنے ارادوں کے بنیادی خدوخال ظاہر کر دیئے ہیں۔ چھبیس مئی کو جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے زیراہتمام ایشیا سوسائٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے چین کے بارے میں وائٹ ہاؤس میں موجودہ سوچ کو پیش کیا۔ جس کا اگر خلاصہ کیا جائے تو یہ ہوگا کہ ’زیادہ مصالحتی لہجے کے ساتھ وہی روایتی اور پرانی باتیں‘ ہیں یقینا یہ سابقہ تمام انتظامیہ کے اہم بات چیت کے نکات کا ایک مجموعہ تھا تاہم واضح طور پر بلنکن نے تکنیکی بحالی سے متعلق حکمت عملی کی وضاحت میں کافی وقت صرف کیا جو اس بات کا بالواسطہ اشارہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ تکنیکی بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنا کر مسلسل بڑھتی ہوئی چینی تکنیکی بالادستی کا مقابلہ کرنے کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ سے ملتا جلتا نقطہ نظر رکھتی ہے۔ بلنکن کے لہجے میں حیرت کی بات نہیں۔ وہ ہمیشہ بیجنگ سے متعلق ٹرمپ انتظامیہ کے ٹریڈ مارک بیانات کا لازمی حصہ رہے۔ بلنکن نے واضح طور پر کہا ہے کہ امریکہ چین کے ساتھ کسی بھی قسم کی نئی سرد جنگ یا براہ راست جنگ جیسا تنازعہ نہیں چاہتا۔ ہم چین کو ایک بڑی طاقت کے طور پر اس کے کردار سے روکنے کی کوشش نہیں کرتے اور نہ ہی چین یا کسی دوسرے ملک کو اس معاملے میں اپنی معیشت کو بڑھانے یا اپنے عوام کے مفادات کو آگے بڑھانے سے روکنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے لبرل بین الاقوامی نظام کی تشریح کیلئے ایک ”نظرثانی پسند“ چین کی تمام کوششوں کو مسترد کرنے کیلئے طاقت کے استعمال کا سہارا لینے کی امریکی پالیسی کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ چین واحد ملک ہے جس کا مقصد بین الاقوامی نظام کو نئی شکل دینا اور تیزی سے ایسا کرنے کی اقتصادی‘ سفارتی‘ فوجی اور تکنیکی طاقت دونوں ہیں۔ بیجنگ کا ویژن ہمیں ان آفاقی اقدار سے دور کر دے گا جنہوں نے گزشتہ 75 سالوں میں دنیا کی اتنی ترقی کو برقرار رکھا ہے۔ بلنکن نے دو ٹوک انداز میں چین کو خبردار کرنے کے ساتھ امریکی اتحادیوں کو یقین دلایا کہ واشنگٹن موجودہ لبرل بین الاقوامی نظام پر سمجھوتہ نہیں کرے گا اور امریکہ بحیرہ جنوبی اور مشرقی چین میں بیجنگ کی جارحانہ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی مخالفت جاری رکھے گا لیکن بلنکن نے اس بارے میں کسی ٹھوس منصوبے کا ذکر نہیں کیا کہ واشنگٹن عالمی میدان میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے کس طرح منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ ابھی تک چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے یا اُسے پیچھے دھکیلنے‘ چین کے معاشی و تجارتی غلبے اور چین کی ترقی کو دبانے کیلئے ٹھوس جوابی حکمت عملی کے بارے میں واضح سوچ نہیں رکھتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلنکن نے اپنی تقریر میں چین کے خلاف بار بار کی جانے والی شکایات کی ایک لمبی فہرست کا ذکر کیا۔ ٹیکنالوجی چوری‘ جاسوسی‘ غیر قانونی ٹیکنالوجی کی منتقلی‘ سپلائی چین کے مسائل اور غیر مساوی مارکیٹ رسائی وغیرہ جیسی کارپوریٹ بدعنوانیاں۔ گزشتہ ماہ ٹوکیو میں صدر بائیڈن کے بیان کے برعکس جہاں انہوں نے تائیوان پر مین لینڈ چین کے حملے کی صورت میں فوجی مداخلت کا وعدہ کیا تھا‘ بلنکن نے تائیوان‘ چین اور امریکہ کے پیچیدہ تعلقات میں اس کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے جبری زبان استعمال نہیں کی انہوں نے زور دے کر ”ون چائنا پالیسی“ کی مسلسل پاسداری کا اعادہ کیا۔ چین کے بارے میں بلنکن کی پالیسی تقریر کا سرسری جائزہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے بیجنگ کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کے مؤقف کی ناکامی سے کچھ سبق سیکھے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے صدر ژی کی حکومت کو گھیرنے کیلئے تجارتی جنگ‘ جیوپولیٹیکل نفاذ‘ سفارتی دھمکی‘ تکنیکی پابندیاں اور دیگر بالواسطہ غنڈہ گردی کے اقدامات سمیت بہت سے جارحانہ اقدامات کی کوشش کی تھی لیکن یہ تمام اقدامات واشنگٹن کے مطلوبہ تزویراتی مقاصد کے حصول کیلئے ناکافی ثابت ہوئے۔ بلنکن نے چین داخلی سماجی و سیاسی نظام کے بارے میں معروف امریکی بیان بازی کا بھی حوالہ دیا لیکن اُن کا لہجہ نرم تھا اور انہوں نے توازن قائم کرتے ہوئے‘ شکایات کی ایک لمبی فہرست سنائی۔ بلنکن نے چین کے ساتھ باہمی تعاون کے ممکنہ علاقوں بشمول صحت عامہ کے مسائل‘ آب و ہوا سے متعلق حکمت عملی‘ جوہری عدم پھیلاؤ اور ہتھیاروں پر قابو پانے‘ منشیات نیٹ ورک کی عالمی توسیع‘ بڑھتی ہوئی غذائی عدم تحفظ اور عالمی میکرو اکنامک ہم آہنگی کے بارے میں بات کرنے میں کافی فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔ مصالحتی مدت میں انہوں نے عہد کیا کہ ”جب ہم سرمایہ کاری کریں گے‘ ہم آہنگ ہوں گے اور مقابلہ کریں گے تو ہم بیجنگ کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور ہمارے مفادات اکٹھے ہوں گے۔“ تاہم انتھونی بلنکن کی بہت زیادہ مشہور تقریر نے چین کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ کے نقطہ نظر کے بارے میں دو بنیادی حقائق کو بے نقاب کیا ہے۔ ایک یہ کہ صدر بائیڈن بیجنگ پر غیر ضروری غنڈہ گردی کرکے ٹرمپ کی غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہتے۔ وائٹ ہاؤس میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں کسی ملک کا بازو مروڑنا جواب کی صورت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ بالواسطہ طور پر اعتراف کر رہی ہے کہ وہ مستقبل قریب میں چین اور اس کے نظام کو تبدیل نہیں کر سکتی اور دوسرا یہ کہ امریکی ابھی تک چین کے بارے میں کوئی ٹھوس حکمت ِعملی تیار نہیں کر سکے ہیں کہ عالمی سیاست میں بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کیسے روکا جائے اور شاید یہ بات واشنگٹن میں پالیسی سازوں کے ساتھ بڑا مسئلہ ہے۔