40

نجی تعلیمی اداروں کا کردار

پاکستان کی آبادی جس تیزی سے بڑھی ہے اور بڑھ رہی ہے اس میں عوام کو تعلیم کے زیو ر سے آراستہ کرنا حکومتی سطح پر ایک بہت مشکل کا م ہے۔ تعلیم چونکہ ایک صوبائی مسئلہ ہے اس لئے دیکھنا یہ ہے کہ کسی بھی صوبے کے ذرائع آمدن کیاہیں اور اس کے اخراجات کی مد میں کتنا کچھ چلا جاتا ہے۔ اس سب کچھ کے بعد اگر اس بڑھتی ہوئی آبادی کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے کسی بھی صوبے کے پاس کتنے وسائل ہیں۔ اس کا جائزہ لیا جائے تو کوئی بھی صوبہ اپنے ساری آبادی کے نوجوانوں کو مکمل طور پر تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ کسی بھی صوبے یا مرکز کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ پوری آبادی کے نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے قابل ہو سکے۔ اس کیلئے حکومتیں نجی اداروں کی اس میدان میں لانے کیلئے حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ چنانچہ کسی بھی شہر میں چلے جائیں آپ کو حکومتی اداروں کے علاوہ بہت سے نجی تعلیمی ادارے بھی ملتے ہیں۔ نجی اداروں کے متعلق یہ ہے کہ یہ مقابلے میں ہونے کی وجہ سے اپنی کار کردگی کوبہتر سے بہتر کرنے کے تگ و دو میں ہوتے ہیں۔ اس کے لئے وہ اچھے سے اچھا سٹاف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور مقابلے کی وجہ سے یہ ادارے اپنے تعلیمی معیار کوبلند کرنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔

آپ کو مختلف شہروں میں بورڈ کے امتحانات کے بعدبڑے بڑے بورڈ دکھائی دیتے ہیں کہ جن پر نجی ادارے اپنے ریزلٹ بڑے فخر سے دکھاتے ہیں کہ ان کے بچوں نے بورڈ کے امتحانات میں کس طرح کی پوزیشنیں لی ہیں۔ والدین بھی کوشش کرتے ہیں کہ اچھے سے اچھے نجی سکو ل میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں۔ مقابلے کی وجہ سے نجی ادارے اپنے ہاں بہتر سے بہتر اساتذہ کوبھرتی کرتے ہیں اوربہتر سے بہتر نتائج دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وجہ سے عوام کابھی ٹریند بن گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اچھے سے اچھے نجی سکول میں تعلیم دلوائیں۔ گو ہمارے سرکاری سکول بھی تعلیم کے لحا ظ سے کچھ کم نہیں ہیں مگرمسئلہ یہ ہے کہ سرکاری سکولوں میں طالب علموں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اُس میں اساتذہ کو ریزلٹ دینا مشکل ہو جاتا ہے اگر ایک ایک کلاس میں سو سو بچے ہوں گے جن کے بیٹھنے کابھی انتظام نہیں ہو پاتا تو اس میں کوئی کیسے پڑھائے گا اور کیا نتیجہ دے گا۔ سرکاری سکولوں کا بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ان میں کلاس روموں کی تعداد بھی کم ہوتی ہے اوربچوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ان کو ایک وقت میں پڑھانااور ان کا کام چیک کرنا ایک مشکل ترین کام ہے۔ اور اگر بچے کا کام چیک نہیں ہو گا اور اس کو غلطیوں کاپتہ نہیں چلے گا تو وہ کیا نتیجہ دے گا۔یہی وجہ ہے کہ سرکاری سکولوں کے بچوں کے نتائج اچھے نہیں آتے۔

اگر ایک کلاس میں سو سے زیاد ہ بچے ہوں گے اور ان کے لئے بیٹھنے کاانتظام بھی نہیں ہو گا تو بچے کیاپڑھیں گے اور کیا نتیجہ دیں گے۔ سرکاری سکولوں کی ایک کمزوری یہ ہے کہ یہاں اساتذہ یا ہیڈ ماسٹر کسی بندے کو انکاربھی نہیں کر سکتا کہ اس کے پاس مزید گنجائش نہیں ہے۔ آپ کسی بھی سکول میں چلے جائیں اور وہاں بچوں کو دیکھیں کہ کس طرح وہ بیٹھے ہیں اور کس طرح ان کو تعلیم دی جا رہی ہے؟ مسئلہ یہ بھی ہے کہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کسی کو داخلے سے انکار بھی نہیں کر سکتے۔اور اس طرح وہ گنجائش سے زیادہ طلبہ کو پڑھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔کیونکہ خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں سکول انتظامیہ اور آس پاس کی آبادی کے درمیان قریبی رابطہ ہوتا ہے اسلئے انکار کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ باوجود اسکے سرکاری سکولوں کی کارکردگی بہتر سے بہتر ہونے لگی ہے اور اب توبعض علاقوں میں سرکاری سکولوں میں بچوں کو داخل کرنے کا رجحان کافی بڑھ گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ نجی اور سرکاری شعبہ دونوں مل کر بہترنتائج دے سکتے ہیں اور جہاں بات تعلیم کی ہو تو یہاں پر اس اشتراک کی زیادہ ضرورت ہے نجی تعلیمی اداروں کی موجودگی میں مقابلے کی فضاء پیدا کی ہے جس میں طلباء اور والدین کا مفاد ہے۔

  پروفیسر یحییٰ خال