41

توجہ طلب معاملات

ہر سال بجٹ دستاویزات میں جو سقیل زبان استعمال ہوتی ہے وہ اس ملک کے عام آ دمی کے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر سلیس اور آ سان اردو میں بجٹ پیش کئے جاتے تاکہ ملک کے عام آ دمی کے پلے بھی پڑتا کہ ملک چلانے کیلئے جو ریونیو اس پر ٹیکس لگا کر جمع کیا جاتا ہے وہ کہاں کہاں خرچ ہوتاہے اس جملہ معترضہ کے بعد ذکر کرتے ہیں ان بین الاقوامی اور قومی امور کا کہ جو آج کل دنیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں لگ یہ رہا ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان تائیوان پر جنگ کا تندور کسی وقت بھی گرم ہو سکتا ہے برداشت کی بھی کوئی حدہوتی ہے ایک عرصے سے امریکہ ان عناصر کی ہلہ شیری کر رہا ہے کہ جو تائیوان کو اس چین کا حصہ نہیں سمجھتے کہ جو 1949 میں عالم وجود میں آ یا اور جس کے بانی مبانی ماوزے تنگ تھے یوکرین اور روس کی حالیہ جنگ میں جس طرح چین نے کھل کر روس کا ساتھ دیاہے اس کے پیش نظر تائیوان پر اگر امریکہ اور چین میں جنگ چھڑتی ہے تو عین ممکن ہے کہ روس چین کے شانہ بشانہ کھڑا ہو سیاسی مبصرین نے بہت پہلے ہی سے یہ پیشگوئی کر دی تھی کہ یوکرین اور روس کی جنگ جب ختم ہوگی تو پھر تائیوان پر چین اور امریکہ کے درمیان پرانا تنازعہ سر اٹھا سکتاہے۔

پاکستان کے راستے بیرون ملک جانے والے افغان شہریوں کیلئے تو حکومت نے نئی ویزا پالیسی کا اجرا کر دیا ہے پر حیرت کی بات یہ ہے کہ ابھی تک حکومت نے ان افغانیوں کے بارے میں کوئی امیگریشن پالیسی نہیں بنائی کہ جو آئے دن افغانستان سے مختلف قسم کے کام کاج کے واسطے پاکستان کا رخ کرتے ہیں مثلا ًتجارتی امور یا پاکستان میں مقیم اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کیلئے یا اپنے علاج کی خاطر۔اب ایک اور اہم مسئلے کا تذکرہ ہوجائے کہ یہ جو ملک میں بجلی کا بحران ہے اس کے ملکی معیشت پرمنفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور اس حوالے سے ایک مثال کافی ہے کہ ٹیکسٹائل جو ملکی برآمدات کا بڑا اور اہم حصہ ہے اس میں ڈرمائی کمی کا خدشہ ہے اور اس کی بنیادی وجہ توانائی کا ملک گیر بحران ہے، جس کے باعث ٹیکسٹائل فیکٹریاں بھی شدید متاثر ہو رہی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ توانائی کی کمی نے پاکستان کی اہم ٹیکسٹائل کی صنعت کو شدید متاثر ہے جو ڈینم مصنوعات سے لے کر بستر کی چادروں تک کئی مصنوعات یورپ اور امریکہ کی منڈیوں تک پہنچاتی ہے اور ملکی برآمدات کا قریب 60 فیصد اس صنعت سے آتا ہے۔اس طرح دیکھا جائے تو توانائی بحران سے صنعتی شعبہ بری طرح متاثر ہورہا ہے جس کیلئے کوئی پالیسی جلد از جلد بنانی ہوگی اور اس کا ایک آسان حل یہی ہے کہ گھریلوصارفین کی شمسی توانائی نظام پر منتقل کرنے کی تیاری کی جائے۔ اگربڑے پیمانے پر حکومت یہ سٹیشن نہ بنائے تو کم از کم گھریلو صارفین کو انفرادی سطح پر شمسی توانائی نظام کی تنصیب میں مدد فراہم کرے اور خوش آئند امر تو یہ ہے کہ اس طرف موجودہ حکومت نے شروعات کر دی ہیں اور حالیہ بجٹ میں یہ جو شمسی توانائی کے پینلز پر ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے اور بینکوں کے ذریعے گھریلو صارفین کیلئے شمسی توانائی نظام کے تنصیب کیلئے قرضے دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

  سید مظہر علی شاہ