پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی تبدیلی کی خبریں گردش میں ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ پہلے مرحلے میں مسلم لیگ ن ، مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف کے باغی ارکان مل کر عدم اعتماد لائیں گے نتیجے میں پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہو گا۔ مسلم لیگ ق کے پرویز الٰہی متوقع وزیر اعلٰیٰ ہو سکتے ہیں اور دوسرے مرحلے میں وفاقی سطح پر ایک قومی حکومت بنے گی۔
عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہو جائے گی ، اس طرح عمران خان وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔ بعض حلقے ممکنہ وزیر اعظم کے لیے محمد میاں سومرو کا نام تجویزکر رہے ہیں جب کہ ایک ممکنہ نام مولانا فضل الرحمان کا بھی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے وزیر اعظم بننے کا امکان کم ہے ، شاید وہ یہ چاہتے ہیںکہ سیاسی معاملات میں ان کی اہمیت برقرار رہے اور وہ جلد از جلد اقتدار کی کسی مرکزی پوزیشن پر پہنچ جائیں ، لہٰذا وہ اپنا دباؤ تمام اداروں پر بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ نئے حکومتی نظام میں انھیں نظر انداز نہ کیا جائے۔
اندرون خانہ معاملات کے بارے میں پاکستان کی سیاست میں نت نئے تبصرے اور اس طرح کی پیش گوئیاں نئی بات نہیں ہے۔ قیام پاکستان سے سیاست جوڑ توڑ کا شکار رہی۔ خطے کے حالات بھی اس پر اثر انداز رہے جمہوری نظام کا تسلسل قائم نہ رہا ، عدم استحکام کا سلسہ کسی نہ کسی طرح غالب رہا ، یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہم بحیثیت قوم اس کے عادی ہو گئے ، یہ جاننے کے باوجود کہ عوام کے حالات میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی اور دنیا کہ دیگر ممالک ہم سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے الیکٹرانک ذرایع ابلاغ کے تبصروں تجزیوں کا مرکز و محور مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف یا چند گنی چنی شخصیات ہیں۔ عوام خوشحالی اور قومی ترقی کے لیے اہم مسائل کے بارے میں تحقیق ، مباحثہ اور تجزیہ انتہائی محدود ہے۔
جدید دور کا تقاضہ یہ ہے کہ عوام کی خوشحالی ، تحفظ اور انھیں با اختیار بنانے کو موضوع بحث بنایا جائے غربت کے خاتمے کو خصوصی اہمیت دی جائے موجودہ حکومت یا آنے والی حکومت کے لیے بڑے چیلینجز ہیں جس سے فرار ممکن نہیں ہے۔ حقیقت سے کوئی انکار نہیںکر سکتا کہ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت اور پسماندگی کا شکار ہے جس سے ملک کی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ عوامی خوشحالی غربت کے خاتمے کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے جب بھی مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے ، غربت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ غربت اور پسماندگی کی وجہ سے کروڑوں لوگ مناسب خوراک اور صاف پانی سے محروم ہیں جو زندگی کے لیے بنیادی لوازمات ہیں۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریبا ساڑھے پانچ کروڑ لوگ غربت کا شکار ہیں جب کہ ورلڈ بینک کے ہمہ جہتی پیمانے کے مطابق یہ تعداد نو کروڑ تک جا پہنچتی ہے۔ غربت کا پیمانہ دو سو پچانوے روپے یومیہ طے کیا گیا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹو ں کے مطابق غربت کی وجہ تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی آبادی ، بار بار رونما ہونے والے معاشی بحران اور قومی ترقی کی سست روی ہے۔ معاشی عدم استحکام اور بحران غربت میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ ایک رپورٹ میں بڑھتی ہوئی آبادی کو بہت بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی 2050ء تک 35 کروڑ ہو جائے گی، سابقہ رجحان کو مدنظر رکھا جائے تو یہ آبادی چالیس کروڑ تک بھی جا سکتی ہے۔
آبادی کے اس اضافے کو روکنے کے اقدامات ناکافی ہیں۔ سماجی ڈھانچہ بھی اس میں رکاوٹ ہے اگر غیر معمولی اقدامات نہ کیے گئے تو حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ خواتین کی تعلیم ، روزگار ، خود مختاری اور صحت کے موثر منصوبے بہبود آبادی کے لیے معاون ہوتے ہیں لیکن ایک ہمہ گیر منظم بہبود آبادی کی گھر گھر مہم کے بغیر صورت حال پر قابو پانا قریباََ ناممکن ہے۔ غربت کی دیگر وجوہات میں ناخواندگی اور تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے ، تقریبا گیارہ کروڑ افراد ناخواندہ ہیں ایک کروڑ سے زائد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ سالانہ پچاس لاکھ بچوں کے لیے مزید نئے اسکولوں کی ضرورت ہے ، وقت گزرنے کے ساتھ آبادی میں اضافہ کا مسئلہ شدت اختیار کرے گا۔ بڑھتی ہوئی آبادی ، غربت اور پسماندگی کے نتیجے میں امن و امان کے مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ انتشار اور افراتفری کی کیفیت سے ملک کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
غربت کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر روزگارکا انتظام کرنا ہو گا، خصوصا دیہی علاقوں میں روزگار فراہم کرنا ہو گا ، کم از کم اجرت میں اضافہ ، محنت کشوں کے مناسب اوقات کار ان کی بیماری اور دیگر حادثاتی چھٹیاں جس میں تنخواہ برقرار رہے دیگر ضروری اقدامات ہیں۔ قیام پاکستان سے اب تک ہمارا ترجیحی موضوع بحث اہم سیاسی شخصیات کی سرگرمیاںہیں آج بھی بلاول بھٹو ، عمران خان ، شہباز شریف یا چند دیگر شخصیات کی سرگرمیاں اور ان کے بیانات ، سیاسی رسہ کشی ذرایع ابلاغ کی ترجیح ہیں۔
اہم مسائل اور عوام ہمیشہ نظر انداز ہوئے موجودہ حالات پہلے ہی پریشان کن ہیں۔ چین کے کرونا وائرس کی صورت میں ایک نیا مسئلہ سامنے آ گیا ہے ، جس کے منفی اثرات پاکستان پر بھی ہو رہے ہیں چین کے ساتھ تجارت اور آمد و رفت میں رکاوٹیں مزید مشکلات کا باعث ہیں۔ اس سے نمٹنے کے اقدامات اپنی جگہ ٹھیک ہیں بنیادی اور اصل مسئلہ غربت ، پسماندگی اور بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے اہمیت دینی ہو گی۔
ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور ملکی اقتدار سے متعلقہ تمام اداروں کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ اس انتہائی خطرناک صورت حال کا جائزہ لے کر ہنگامی اقدامات کریں۔ پاکستان کے اہل دانش اور دیگر اہم افراد کو بھی اس مسئلے پر توجہ دینی ہو گی۔ اس پر آنکھ بند کرنا یا لاتعلق رہنا مسائل میں مزید اضافے کا باعث ہو گا۔ یہ وہ مسائل ہیں جو سیاست سے بالاتر ہیں ، یہ ایک جنگ ہے جس کے لیے قومی یکجہتی ضروری ہے، پوری قوم کو مل کر کوشش کرنی ہے یہ انتہائی پیچیدہ اور مشکل کیفیت ہے۔
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے