182

آئینی وسیاسی تقاضے

 حالیہ چند ماہ کے دوران تغیرپذیر‘ پاکستان کی داخلی سیاسی صورتحال تشویشناک سے دلچسپ اور دلچسپ سے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے‘ ایک ایسا ماحول تخلیق پا چکا ہے جس میں اختلافی مو¿قف کی گنجائش نہیں رہی اور یہی وجہ ہے کہ مختلف النظریات سیاسی جماعتیں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کےساتھ تعاون پر مجبور دکھائی دے رہی ہیں‘حزب اقتدار و اختلاف کی جماعتوں کے درمیان غیرمشروط تعاون کا آغاز پاک فوج سے متعلق ترمیمی مسودہ قانون کی تیاری اور منظوری سے متعلق ہے اور جس پر تیزی سے کام جاری ہے ابتدا میں مسلم لیگ (ن) کی بیرون ملک اعلیٰ قیادت کی جانب سے ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ اگر حکومت پندرہ جنوری سے قبل مذکورہ ترمیمی قانون منظور کروانے کی کوشش میں جلدبازی کا مظاہرہ کرتی ہے تو ان سے تعاون نہ کیا جائے لیکن پھر اپنے مو¿قف سے رجوع کرتے ہوئے لیگی اراکین قومی اسمبلی و سینٹ کو پیغام دیا گیا ہے کہ حکومت کے وضع کردہ پروگرام کے مطابق‘ تعاون کریں اور یہ بات پارٹی کے ان کارکنوں اور رہنماو¿ں کے حوصلے پست کرنے کا باعث بنی ہے‘ جنہوں نے تحریک انصاف کی جانب سے جلدبازی میں قانون سازی کرنے کی حمایت نہ کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا تھا اور پارٹی کے اس پہلے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے خوشیاں منا رہے تھے کہ بالآخر تحریک انصاف نواز لیگ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی ہے لیکن سیاسی و آئینی حالات نے کچھ ایسی کروٹ لی ہے کہ سیاسی و اصولی مو¿قف اور زیادہ سوچ بچار کی گنجائش تک باقی نہیں رہی۔آئین سازی کے آئینی تقاضے نہایت ہی شائستگی سے پورے ہو رہے ہیں۔ وزیر دفاع پرویز خٹک نے پاکستان آرمی ترمیمی بل 2020ءمنظوری کے لئے پیش کر دیا ہے‘ جس سے متعلق حزب اقتدار و اختلاف کے درمیان پہلے ہی مشاورتی ادوار مکمل ہو چکے ہیں۔ مجوزہ قانون کے مطابق پاک فوج کے مختلف شعبوں کے سربراہوں کی زیادہ سے زیادہ مدت ملازمت 64 برس ہوگی اور چیئرمین جائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی اور وزیراعظم کو اختیار ہوگا کہ وہ صدر مملکت کی اجازت سے اگر 60 سال تک خدمات سرانجام دینے کے بعد اس ملازمتی مدت میں اضافہ کرنا چاہیں تو ایسا کر سکیں گے۔ قبل ازیں رواےتی طرزعمل اور عجلت کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے پاک فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت سے متعلق امور متنازعہ حیثیت حاصل کر گئے تھے اور بعدازاں یہ منفی تاثر بھی ابھر کر سامنے آیا تھا کہ گویا وفاقی حکومت کسی ایک اور کسی خاص منظورنظر شخص کے لئے قانون میں ترمیم کرنا چاہتی ہے۔

 حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں(نواز لیگ اور پیپلزپارٹی) نے پاک فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت سے متعلق قانون میں ترمیم کی اصولی حمایت کر رکھی ہے اور یہ اپنی جگہ دانشمندانہ پیشرفت ہے تاکہ ملک کے اہم ترین ادارے سے متعلق تنازعات سامنے نہ آئیں‘ نواز لیگ کی جانب سے کہا گیا کہ وہ پارٹی کے رہبر میاں نواز شریف کے احکامات کی پابندی کریں گے اور بعدازاں نوازشریف نے تحریک انصاف کا ساتھ دینے کا حکم جاری کر دیا‘ جسکے بعد تمام رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے چند تحفظات کا اظہار نہایت ہی نپے تلے اور محتاط انداز میں کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آئین میں ترمیم کرنے کےلئے اختیار کیا جانےوالا طریقہ کار عجلت پر مبنی ہے‘اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے وضاحت اور حزب اختلاف کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے ترمیمی قانون کو جلد از جلد منظور کروانے کی کوششوں میں زیادہ تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب ترمیم کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نظر نہیں آ رہی۔تحریک انصاف کی جانب سے پاک فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کرنے کےلئے رواےتی طریقہ کار اپنایا گیا‘ جس سے معاملہ سپرےم کورٹ کے سامنے جا پہنچا‘ جہاں سے اسے بذریعہ قانون سازی حل کرنے کےلئے پارلیمنٹ بھیج دیا گیا۔

ماضی میں بھی پاک فوج کے سربراہوں کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاتی رہی ہے اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا کہ وزیراعظم نے اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کیا ہو جیسا کہ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت بڑھائی تو اس وقت بھی مخالفت میں کچھ آوازیں سننے کو ملی تھیں لیکن حالیہ دنوں میں اعتراض عدالت تک جا پہنچا۔ جمہوریت کا مطلب ہی اختلاف رائے ہوتا ہے‘ جس میں اکثریت کے نقطہ نظر کو فوقیت دی جاتی ہے اور بحث و مباحثے کا ایک ایسا ماحول تخلیق کیا جاتا ہے جس میں اکثریت کی رائے پر اثرانداز ہوئے بغیر اسے بذریعہ دلیل قائل کرنے کی کوشش یا اسے یکساں اہمیت دی جاتی ہے‘ خوش آئند ہے کہ پاک فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ نہایت ہی خوش اسلوبی اور مقررہ وقت میں طے ہونے جا رہا ہے اور آئینی ترمیم کا مسودہ جلد منظور ہو جائے گا جسکے بعد ملک کی سیاسی و عسکری قیادت دیگر اہم قومی و علاقائی سلامتی سے متعلق امور پر توجہ دے پائیں گے‘ تین جنوری سے شروع ہونےوالے نئے امریکہ ایران تنازعے سے پاکستان کو محفوظ رکھنے اور سرحدوں پر منڈلاتی جنگ کے ماحول میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا یقینا آسان نہیں ہوگا جس کےلئے سیاسی و عسکری یکسوئی ضروری ہے۔