92

جعلی ادویات

 جعلی ادویات کا کاروبار ملک میں تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے مہلک امراض بھی بڑھ رہے ہیں‘فارمیسی میں جو کام ایک فارماسسٹ کے کرنے کا ہوتا ہے وہی کام ایک ایسا آدمی کررہا ہوتا ہے جو فارمیسی سے نابلد ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 50فیصد ادویات جعلی ہیں اور غلط نسخوں پر بنائی جا رہی ہیں‘معصوم اور غریب عوام اپنا حق حلال کا پیسہ ان جعلی ادویات کی مد میں اپنے لئے موت کا سوداکررہے ہوتے ہیں‘ڈرگ رجسٹریشن اتھارٹی کی نااہلی کے سبب ایسی کئی دوائیاں رجسٹر ہو رہی ہیں جو سراسر انسانی صحت کےلئے مضر ہیں‘ ایک اور رپورٹ کے مطابق پچھلے کچھ سالوں میں جتنی دوائیاں رجسٹر ہوئی ہیں پچھلی کئی دہائیوں میں نہیںہوئیں‘اور ان سب سے زیادہ نقصان عوام کو اور سب سے زیادہ فائدہ ان جعلساز کمپنیوںکوہو رہا ہے۔ مارکیٹ میں بڑی اور قابل بھروسہ سمجھی جانےوالی دواﺅں کے نام پر جعلی ادویات کی فروخت بڑے پیمانے پر کی جا رہی ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ میڈیکل سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اصل اور نقل میں پہچان کرنے سے قاصر رہتے ہیں‘پاکستان میں جہاں ہر شعبے میں بددیانتی ہورہی ہے وہاں اس شعبے میں بھی بے ایمانی کے کھوٹے سکے بخوبی چل رہے ہیں‘ پیسوں کی خاطر لوگوں کی جانوں سے کھیلا جا رہا ہے کیپسولز کے اندر گندم یا میدے کا آٹا اور سیرپ کے نام پر رنگین پانی فروخت کیا جا رہاہے۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ صحت کی کم سہولتوں کے حوالے سے پاکستان سب سے پسماندہ ملک ہے جہاں ادویات اور غذاکی قلت کے باعث روزانہ 1184بچے وفات پا جاتے ہیں45فیصد بچوں کی اسی وجہ سے ذہنی اور جسمانی گروتھ مکمل نہیں ہو پاتی اور وہ وقت سے پہلے ہی موت کی نیند سو جاتے ہیں۔

 وطن عزیز جہاں غذا ‘تعلیم ‘رہائش ‘آلودگی‘صاف پانی کی عدم فراہمی سمیت دیگر بہت سے بنیادی مسائل زندگی کو مسرت اورراحت فراہم کرنے کی بجائے ساری عمر روزی روٹی پوری کرنےوالا جانور بنا دیتے ہیں وہیں پر حیرت انگیز طور پر صحت کے حوالے سے جنم لینے والی بیماری کے علاج پر پاکستان کا ہر شہری اپنی آمدن کا اوسطاً 37 فیصد ادویات کی خرید اری اور ڈاکٹرز کی فیسوں کی مد میں ادا کر دیتا ہے اس پر ظلم کی انتہایہ ہے کہ پاکستان کے اندر فروخت کی جانیوالی ادویات ناصرف انتہائی مہنگی ہیں بلکہ خوفناک حقیقت یہ ہے کہ فروخت ہونیوالی ان ادویات میں سے ستر فیصد دوائیں جعلی اور جان لیوا ہوتی ہیں‘ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی جعلی ادویات سے ہر سال اربوں روپے کمائے جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ جرم ہر سال ہزار ہا انسانوں کو وقت سے پہلے قبروں میں اتار رہا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں جعلی وغیرمعیاری ادویات کے کاروبار کا سالانہ حجم دوسوارب ڈالر کے قریب ہے۔کئی اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں جتنے بھی کاروباری شعبوں میں قانونی اور معیاری مصنوعات کی غیر قانونی اور غیر معیاری نقل تیار کرکے جتنا بھی منافع کمایا جاتا ہے‘ان میں جعلی ادویات سے ہونےوالا منافع سب سے زیادہ ہوتا ہے ‘پاکستان میں جعلی ادویات کا کاروبار بہت پھیلا ہوا ہے‘۔

انکی وجہ سے مریض ہلاک بھی ہو جاتے ہیں اور کئی شہروں میں جعلی ادویات بنانے کی فیکٹریاں بھی قائم ہیں‘ایسے اہلکاروں کے ان دعوﺅں کی تردید کےلئے محض چند بڑے حقائق کی طرف اشارہ کرناہی کافی ہوگا‘2012میں پاکستان کے دو شہروں میں کھانسی کا شربت پینے کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے‘وجہ یہ تھی کہ شربت تو کھانسی کے علاج کےلئے تھا مگر پینے والوں نے اسے نشے کےلئے بہت زیادہ مقدار میںپیاتھا پاکستان میں دواسازی کی صنعت کے غیر جانبدار ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے رکن ممالک کی تعداد 191ہے‘ان میں سے صرف 20فیصد ریاستوں کے پاس فارما انڈسٹری سے متعلق کوالٹی کنٹرول کا بہترین نظام موجود ہے‘اسکے برعکس پاکستان میںجو آبادی کے لحاظ سے دنیاکا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے‘آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔چند حلقے تو یہ دعوے بھی کرتے ہیں کہ اس جنوبی ایشیائی ملک میں کچھ رجسٹرڈ دوا ساز ادارے ایسے بھی ہیں جو فارماسیوٹیکل فیکٹریوں کے طور پر دو دو کمروں کے گھروں میں کام کر رہے ہیں‘ایسی ادویات بنانےوالے کئی افراد ڈاکٹروں کےساتھ مل کر کروڑوں کا منافع کما رہے ہیں‘جو ڈاکٹر ایسا کرتے ہیںیا محض کسی خاص کمپنی کی تیار کردہ ادویات ہی مریضوں کےلئے نسخے میں لکھتے ہیں‘انہیں بیش قیمت تحائف ملتے ہیں یا بیرون ملک دورے کرائے جاتے ہیں لاہور اور پشاور جیسے شہروں میں بھی جعلی ادویات بنانےوالے خاصے فعال ہیںجو نقلی دوا بیس روپے کی لاگت سے بنتی ہے‘وہ ڈھائی تین سو روپے میں بیچی جاتی ہے‘جس میں ہر کسی کا حصہ ہوتا ہے۔دودو کمروں کے گھروں کو فیکٹری بنا کر رجسٹرڈ کیا جاتا ہے‘وہاں جو کچھ بنتا ہے‘اس میں موت تو ہو سکتی ہے‘ زندگی نہیں‘ڈرگ رجسٹریشن اتھارٹی کے افسران اس بات کو سنجیدہ لیتے ہوئے جعلی ادویات بنانےوالی جعلساز کمپنیوں کےخلاف سخت اقدامات کریں تاکہ لوگوں کی قیمتی جانیں ضائع نہ ہوں۔