192

سب سے پہلے پاکستان

 جب بھی ہمارے معاشی اشاریے بہتر ہونے لگتے ہیں‘حکمران خوشخبریاں سنانے اور کارکردگی دکھانے لگتے ہیںتوکوئی ناگہانی تبدیلی اور حالات کا چکر ایسا گھومتا ہے کہ سب کچھ چکرا کر رہ جاتا ہے‘نئے سال میں ترقی کی خوشخبری ابھی فضا میں بازگشت کر رہی ہے مگر مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال نے ہمارے تمام اندازے اور تخمینے غلط کرکے رکھ دئیے ہیں‘ اللہ نہ کرے کہ کوئی جنگ چھڑے کیونکہ اس وقت دنیا کے کسی کونے میں جنگ شروع ہوئی تو اس کے اثرات ساری دنیا پر پڑیں گے‘ایران اور امریکہ میں کسی ٹکراﺅکا تو براہ راست ہم پر منفی اثر پڑنا ہے‘ایک ایرانی جنرل کو امریکہ نے نشانہ بنایا تو دنیا میں سٹاک مارکیٹ کریش ہوگئی‘ تیل کی قیمتوں میں چار ڈالر فی بیرل تک اضافہ ہوگیا‘ پاکستان میں سونے کی قیمت ایک دن میں دو ہزار روپے فی تولہ بڑھ گئی‘ اس حادثہ سے پہلے پٹرول کی قیمت تقریباً3 روپے لٹر بڑھ چکی تھی اب مزید اوپر جانے کا راستہ کھل گیا ہے‘ اگر خدانخو استہ ایران نے بدلہ لینے کیلئے امریکہ کی کسی تنصیب پر حملہ کیا تو جواب میں امریکہ بھی اےسا ہی کرے گا جیساکہ دونوں ممالک نے اپنے ممکنہ اہداف کی تعداد بھی بتا دی ہے تو اس صورت میں ان سے زیادہ پاکستان پر اثرات مرتب ہوں گے‘ہمارا المیہ یہ ہے کہ ملک کی جغرافیائی اہمیت سے کبھی فائدہ تو نہیںاٹھایا جاسکا البتہ اس سے نقصان بہت ہواہے۔

1979 میں سوویت یونین کو گرم پانی تک رسائی کیلئے پاکستان تک آنا تھا‘ وہ ہماری سرحدوں پر پہنچ گیا تھا‘ اس کو افغانستان میں مصروف رکھنے کیلئے ہم نے بڑا فیصلہ کیا اور پھر8 سال تک جنگ تو افغانستان میں رہی مگر اس کے شعلے پاکستان میں بھی جلتے رہے‘ جب سوویت یونین وہاں سے نکلا اور یہ اتحاد ٹوٹا تو پاکستان میں لاکھوں ایسے لوگ آگئے جن کی دنیا میں کوئی جائے پناہ نہیں تھی اور پھر ان ہی میں سے کچھ پر الزام لگا کہ انہوں نے امریکہ کے شہر نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ٹوئن ٹاور سے اغواشدہ جہاز ٹکرا کر تباہ کیا‘اس کا بدلہ لینے کیلئے افغانستان پر امریکہ نے حملہ کرنا تھا تو پاکستان کی زمین اور فضا سے گزرے بغیر یہ ممکن نہیں تھا‘اپنی جغرافیائی سٹرےٹیجک پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس وقت کی قیادت چاہتی تو سارے قرضے معاف کرائے جاسکتے تھے لیکن ہم نے معمولی فائدوں کے لئے پاکستان امریکہ کے حوالے کر دیا‘اس فیصلے سے ہمارے افغانستان سے سوویت یونین کو نکالنے اور پناہ کیلئے آنے والے افغانوں کو سنبھالنے کی نیکیاں بھی ضائع گئیں اور افغان ہم کو دشمن سمجھنے لگے‘اس دشمنی نے ہمیں تباہ کردیا اور ابھی تک اثرات سے باہر نہیں نکل سکے‘اب ایک بار پھر امریکہ نے ایران کےساتھ جنگ چھیڑدی ہے اور ایران کےخلاف ایک بار پھر پاکستان کی سرزمین آئیڈےل ہے‘ آبنائے ہرمز سے محدود فضا سے ہی صرف ہوائی حملہ یا بحری جہاز سے میزائل فائر ہوسکتے ہیں مگر بڑے تو پ خانے اور زمینی فوج کا حملہ صرف پاکستان کے صوبے بلوچستان سے ہی ممکن ہے اور اس میں شک نہیں ہونا چاہئے کہ امریکہ کو پاکستان کی اس سٹرےٹیجک اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے‘جنرل سلیمانی پر حملے کے فوری بعد امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپےو نے جن عالمی شخصیات سے رابطہ کیا ان میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوےد باجوہ سرفہرست ہےں اور پھر اس سے اگلے ہی روز امریکی صدر نے پاکستان کیلئے فوجی تربیتی پروگرام بحال کرنے کی منظوری دی ہے‘ وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ امریکہ کی قومی سلامتی اور دونوں ممالک کے فوجی تعاون کو مضبوط بنانے کیلئے کیا گیا ہے۔

 اس قسم کے ہنگامی فیصلے اور تعاون کی راہیں کھولنے کا مقصد پوشیدہ نہیں ہے مگر اس بار اتنا یقین ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اس بات پر واضح ہے کہ پاکستان کی سلامتی اور مفاد کے علاوہ کسی دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے نہ ہی ملکی سرزمین کسی دوسرے ملک کےخلاف استعمال کرنے کی اجازت دیں گے‘ اگرچہ ہماری معیشت بھاری قرضوں اور ’دوستوں‘ کے احسانات کے نیچے دبی ہے اور ہم اکثر سفارتی فیصلے بھی کسی نہ کسی دوست کی خوشنودی یا ناراضگی کے دباﺅ کے تحت ہی کرتے ہیں اور ہمارے ملک کا جغرافیائی محل وقوع ہی ہمیں ہر عالمی تنازعے کا مرکزی کردار بنا دیتا ہے‘ اس پر مستزاد ہم ایک ایٹمی طاقت بھی ہیں‘ ہمیں بڑی عالمی طاقتیں نظرانداز نہیں کرسکتیں‘ کوئی بھی بڑی طاقت ہمیں اپنے اثر سے باہر جانے نہیں دیتی‘اس صورتحال سے ہم فائدہ بھی اٹھا سکتے تھے‘ ماضی میں مصر نے اسرائیل سے صلح کرنے‘ فلپائن نے دیوالیہ ہونے کی دھمکی دے کر اور چند سال پہلے ایسی ہی صورتحال پر یونان نے تمام بین الاقوامی قرضے معاف کروائے‘شمالی کوریا کو ایٹمی پروگرام ترک کرنے کے عوض اربوں ڈالر کی پیش کش ہوئی ہے۔

 مگر پاکستان کبھی بھی اپنی اہم حیثیت کے عوض کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکا‘ اب امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان تصفیہ کروانے اور امریکہ کے انخلاءمیں مدد دینے کی نیکی بھی دریا میں ڈالنے کے مترادف ہی گئی ہے‘ایران کو افغانستان نے یہ یقین دہائی توکرائی ہے کہ اس کی سرزمین ایران کےخلاف استعمال نہیں ہوگی مگر پاکستان ابھی تک ایسا بھی نہیں کرسکا لیکن اس سے زیادہ حساس معاملہ ہمارے ہمسائے میں کشیدگی میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہوچکا ہے‘ ہماری لاغر اور لاچار معیشت بھی یہ جھٹکے برداشت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی اور اگر کسی نہ کسی طرح ہم اس تنازعے میں ملوث ہوگئے تو پھر کیا کیا ہوسکتا ہے اس کا تصور بھی محال ہے‘ اس بات پر ساری دنیا متفق ہے کہ امریکہ اور ایران کی ممکنہ جنگ کوئی روایتی جنگ نہیں ہوگی اور دونوں ممالک ایک دوسرے سے کم از کم چالیس سال کے حساب چکانے کو بے چین ہیں‘ ہمیں بہرحال ہر ممکن حد تک غیر جانبدار رہتے ہوئے اپنے ملک کی سلامتی اور مفاد کو ہی پیش نظر رکھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔