119

زندگی مشکل ہورہی ہے

ہمیں بچپن سے پڑھایا گیاہے کہ صفائی نصف ایمان ہے‘ یہ درست ہے کہ سڑکیں ہوں گلیاں ہوں نالیاں ہوں کہ چمن ہوں مہذب معاشروں میں لوکل گورنمنٹ کے متعلقہ ادارے ان کی صفائی ستھرائی کا مناسب بندوبست کرتے ہیں لیکن کئی کام تو ایسے بھی ہیں کہ جو ہم خود بطور شہری اپنے ہاتھوں سے بھی کر سکتے ہیں‘ کیا ہم بسکٹ‘چپس کے خالی ریپر‘ گنڈیریوں کے چھلکے ‘ جوس کے خالی ڈبے چلتی گاڑیوں سے سڑک پر نہیں پھینکتے؟ کیا ہم سگریٹ پی کر اس کا باقی ماندہ حصہ سڑک یا چمن میں نہیں پھینک دےتے ‘ہم پلاسٹک کے تھیلے اب تک نالیوں میں پھینک رہے ہیں اور تو اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر ہمیں جہاں جگہ ملتی ہے ہم جانور ذبح کرکے آلائشےں وہیں پھےنک کر چلے جاتے ہیں‘ ظاہر ہے جب ان پر مکھیاں بےٹھےں گی تو پھر تعفن بھی پیدا ہوگا اور وبائی امراض بھی پھیلیں گے‘کسی بھی شہر چلے جائےں خالی پلاٹوں پر آپ کو کچرے کا انبار نظر آئے گا‘کچرے کی پہاڑیوں سے ماحولیاتی آلودگی پیدا ہو رہی ہے‘ نہ عام آدمی میں احساس ذمہ داری ہے اور نہ میونسپل کمیٹیوں کا عملہ روزانہ کی بنیادوں پر گلیوں‘نالیوں اور سڑکوں پر سے کچرا اٹھا رہا ہے ایک دور ایسا بھی تھا کہ میونسپل کمیٹی والے صبح کی پہلی روشنی سے پہلے سڑکوں ‘گلیوں اور نالیوں کی مناسب صفائی بھی کرتے اور ان پر ماشکیوں یا ٹینکروں کے ذریعے چھڑکاﺅ بھی ‘اب ایک عرصے سے یہ تکلیف کوئی نہیں کر رہا‘ پتہ نہیں کہ فنڈز کی کمی ہے یا جس تیز ی سے شہر پھیلے ہیں اس حسا ب سے میونسپل کمیٹی کے صفائی ستھرائی کرنےوالے عملے کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا‘ یہ مسئلہ اس ملک کے ہر شہر کا ہے کسی ایک شہر کو سنگل آﺅٹ نہیں کیا جا سکتا ‘ مہذب معاشروں میں بازاروں میں ہر فرلانگ کے فاصلے کے بعد اور مارکیٹوں میں صاف ستھرے رواں پانی کی فراوانی کےساتھ واش رومز آپ کو ملیں گے‘ شاپنگ کےلئے آئے ہوئے خریداروں خصوصاً بچوں ‘خواتین ‘بوڑھوں اور بیماروں کو وقفے وقفے سے بیت الخلاءکی ضرورت پڑتی رہتی ہے اپنے ہاں تو کسی کو اس بات کا رتی بھر احساس ہی نہیں‘ایک مہذب اور غیر مہذب معاشرے میں یہی تو فرق ہوتا ہے‘چاہئے تو یہ تھا کہ ہم اس بات کا زیادہ خیال رکھتے کیونکہ ہمےں کہاگےاہے کہ صفائی نصف ایمان ہے لیکن اس معاملے میں بھی ہم مہذب معاشروں سے کافی پیچھے رہ گئے ہیں‘اس ملک میں موٹرویز غالباً واحد جگہ ہے ۔

جہاں تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر صاف ستھرے واش رومز کی سہولت مسافروں کو دستیاب ہے‘ اس سہولت کو اگر عام کر دیا جائے تو نہایت مناسب ہوگا‘ اس مسئلے کےساتھ جڑا ہوا مسئلہ زرعی اور صنعتی آلودگی کا بھی ہے کہ جو اپنا دامن پھیلا رہا ہے‘ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر اس پر بریک نہ لگائی گئی تو آئندہ پچےس برس میں سمندروں اور دریاﺅں میں مچھلیاں کم اور پلاسٹک زیادہ ہو گا‘یہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ تےن چوتھائی کرہ ارض کا جو حصہ ہے وہ پانی کے نیچے ہے اس دنیا میں رہنے والوں کی ایک کثیر تعداد انہی آبی ذخائر سے خوراک حاصل کرتی ہے بات یہاں ہی ختم نہیں ہو جاتی ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ سمندر ایک بڑی حد تک ہمارے موسم ‘درجہ حرارت اور آب وہوا پر بھی اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا سمندروں کی حفاظت بھی ہم پر اسی طرح لازم ہے کہ جتنی خشکی کی‘ افسوسناک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ ہم سمندروں کو صنعتی‘ زرعی اور جوہری فضلے سے گندا کر رہے ہیں‘ ان سے سمندری حیات برباد ہوتی ہے‘ ہم نے فطرت کےخلاف محاذ کھول رکھا ہے یہ جو ہم سمندر میں پلاسٹک پھینک رہے ہیں اسے مچھلیاں کھا رہی ہیں اور یہ عمل انسانی صحت کے لئے نہایت مضر ہے‘یاد رہے کہ سمندر آبی حیات کی وجہ سے زندہ ہیں اگر سمندرکی موت واقع ہوگئی توکائنات کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

اس بات کا بھی پتہ چلا ہے کہ مچھلیوں کا بے دردی سے شکار کیا جا رہا ہے جس سے ان کی نسلیں ختم ہو رہی ہیں‘یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ شکار پر پابندی کے مہینوں میں بھی مچھلیاں پکڑنے کا سلسلہ جاری ہے ‘ سمندر کو زرعی‘ صنعتی فضلے اور پلاسٹک سے بچانے کیلئے ایک منصوبے کی ضرورت ہے‘ مچھلی کی کھپت میں بھی حد درجہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے یہ امر بھی تشویشناک ہے کہ اس وقت سمندر میں1.5 ٹریلین ٹن پلاسٹک موجود ہے اور اس کی تعداد میں ہر سال8 ملین ٹن کااضافہ بھی ہو رہا ہے‘ یہاں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ موجودہ دور میں کیمیائی کھاد‘ کرم کش ادویہ ‘ سٹےرائےڈز‘ اینٹی بائیوٹکس کے استعمال اور فوڈ پراسیسنگ کے جدید طریقوں کی وجہ سے اجناس ‘مرغیاں ‘خوردنی تیل اور گھی وغیرہ زہر بن چکے ہیں‘ کارخانوں سے نکلنے والا دھواں آبی بخارات کےساتھ مل کر تیزابی بارش برسانے کا سبب بن رہا ہے‘ یہ سب عوامل مل کر دنےا کو رہائش کےلئے مشکل سے مشکل بنا رہے ہیں اور اس سب کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔