138

کتابوں کی دنیا

 کہتے ہیں کتاب دینے والا نادان ہوتا ہے ‘پھر کتاب لےکر واپس کرنے والا اس سے بڑا نادان ہے اور کتابیں بطور عطیہ لےکر اپنے ہا ںلائبریری سجانے والا ذاکراللہ نادان ہے‘ اپر دیر براول بانڈی کی مائنس تین والی سردی میںرہتا ہے ‘ ہمارا شاگرد اور دوست ہے ‘مگر ہم نے تو یہ نادانی تھوک کے حساب سے کی ہے ‘اتنی کہ ہمارے شوکیس خالی ہو گئے‘ بس کورس کی کتابیں باقی ہیں جو ضروری ہیں اور مستری کے اوزار کی طرح پڑی ہیں ‘ جنہیں پڑھ کر پڑھانا پڑتا ہے ‘وگرنہ تو ہم نے یہ خزانہ لٹا دیا ہے‘ سب کچھ لٹا کے ہوش میں نہیں آئے لٹانے سے پہلے ہوش میں تھے‘ بس یہ ہوا کہ ایک دم سے خیال آیا کہ اتنی کتابیں کاہے کو جمع کر رکھی ہیں ‘پڑھتے ہو نہیں تو کیا ہمارے بعد یہ کتابیں لائبریری کو عطیہ کی جائیں گی جب یہ خزانہ اپنی قیمت کھو دے گا اس وقت مفت کی تقسیم سے کیا حاصل ‘کیوں نہ اپنے جیتے جی ان کتابوں کو پڑھنے کے شوقین حضرات کے ہاتھوں تک پہنچا دیا جائے‘سو ہم سے جو کتابیں لے گیا اور واپس نہ کیں تو ہم نے بھی جان کر نہ مانگیں کہ ان کو ہماری کتابوں کےساتھ اتنی دلچسپی ہے تو انہی کے پاس رہیں ‘ہمارا کیا ہے ہم نے ایک آدھ صفحہ پڑھا اور شوکیس میں قید کردیا‘کم از کم یہ صاحب کتاب کو پورا تو پڑھیں گے‘ہمیں ایک زمانے میں کتابیں جمع کر نے کا شوق تھا‘ جیسے ٹکٹ جمع کرنے کا اور پرانے سکے جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے۔

ہر چند کہ نہیں پڑھیں مگر الماریوں میں حبس زدہ کرکے ضرور رکھیں‘اگر ہر کتاب کے دس ورق بھی پڑھے ہوتے تو اچھا ہوتا‘پھر اس شوق سے جی بھر گیا‘ ہماری کتابیں جن کے پاس ہیں وہ ہماری یادداشت کی کمزوری پر دل ہی دل میں ہنستے ہوں گے مگر ہم جان کر ہونٹوں پر چپ کی مہر لگائے پھرتے ہیں کہ جان سے بیزار ہیں‘کیونکہ پڑھ لکھ کر ہم نے کیا کر لیا اگر کچھ کرنا ہے تو وہ کرلیںجن کے پاس ہماری کتابیں پڑی ہیں‘ہمیں کیا پڑی ہے کہ موٹی موٹی کتابوں کے ساتھ دل لگائیں‘ اب تو میٹرک کی سند کی عزت او رپروٹوکول دیکھ کر پشیمانی ہے کہ میٹرک کے بعد تعلیم چھوڑ کیوں نہ دی تھی ‘ کتابوںکا دستور تو بس شوکیس میں رکھ دیا گیا ہے ‘ یاتواس کام کے لئے بازاروں میں کتابوں کی دکانوں کے شوکیس بہتر ہیں یا ہم جیسو ںکے گھروں کے ڈرائنگ روموں کی شفاف شیشے والی الماریاں اچھی ہیں ‘بازاروں کے دکاندار بھی سمجھ دارہیں ‘اگر کتابیں فروخت کرتے ہیں توسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے کورس کی کتابیں بیچتے ہیں ‘لیکن کتابوں کی جگہ ان کتابو ںکے خلاصے بھاری تعدا د میں بکتے ہیں‘کیونکہ خلاصے مختصر ہوتے ہیں ‘دو سو ورق کی کتاب پڑھنے سے کیا فائدہ ‘اسی کتاب کی موٹی موٹی باتیں گائیڈ بک سے دیکھ لو او رامتحان دو کیونکہ امتحان تو لازمی ہے مگر کامیاب ہونا بھی اب اختیاری نہیں رہا وہ بھی لازمی ہو چکا ہے۔

پھر اختصار بھی اتنا کہ چھپے ہوئے یہ خلاصے ہاتھ کی چار انگلیوں میں تھامے جا سکتے ہیں‘پھر کمرہ¿ امتحان میں لے جائے بھی جا سکتے ہیں‘ جہاں سی سی ٹی وی کیمرے تو نہیں لگے ہوتے کہ کوئی بڑے افسر کو شکایت کرے گا‘پھر کتابیں کون سی ریوڑیوں کے مول بک رہی ہیں‘ ایک ایک کتاب لینے سے کہیں اچھا ہے کہ آدمی سامنے کیل میں ٹانکا ہوا گھر کی بجلی اور سوئی گیس کا زیادہ آیاہوا بل بھر دے ‘کتابو ں کا شوق صدر میں کالی باڑی یا سٹی میں کریم پورہ بازار میں پرانی کتابوں کی دکانوں پر سے پورا کیا جا سکتا ہے ‘مگر نئی کتابوں کوآج کل کی قیمت دےکر بازار سے اٹھائیں پھرپرانی کتابوں کی دکانو ںپر بھی چار آدمیوں میں سے تین تو کورس کی کتابوں کے لئے کھڑے ہو تے ہیں ‘ کھانے پکانے کی کتابیں بازاروں سے کیا خریدیںاگر مل بھی جائیں تو ڈاکٹری کی کتابوں کی طرح پرانے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں‘کیوں نہ گوگل پر سرچ کر کے بیوٹی پارلر اور ورزش اور حکیمی کتابیں اور سب کچھ ان کتابوں کے تعلق دار لیکچرباز استادوں سے سنیں او رسمجھیں۔