122

لاہور میں متحدہ اپوزیشن کا احتجاج، طاہرالقادری جلسہ گاہ پہنچ گئے

لاہور: سانحہ ماڈل ٹاؤن پر متحدہ اپوزیشن کا احتجاجی جلسہ شروع ہوچکا ہے اور عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری بھی جلسہ گاہ پہنچ چکے ہیں۔

پاکستان عوامی تحریک کی زیر قیادت متحدہ اپوزیشن کے جلسے میں پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ، اعتزاز احسن، لطیف کھوسہ، راجہ پرویز اشرف، نیئر بخاری اور  منظور وٹو سمیت دیگر رہنما شریک ہیں جب کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری بھی کچھ دیر بعد جلسہ گاہ پہنچیں گے۔

تحریک انصاف کی فردوس عاشق اعوان سمیت دیگر پارٹی رہنما اسٹیج پر پہنچ چکے ہیں۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان بھی جلسے سے خطاب کریں گے اور کچھ دیر میں جلسہ گاہ پہنچیں گے۔

متحدہ اپوزیشن کے احتجاج میں عوامی تحریک، پیپلزپارٹی اور  تحریک انصاف کے کارکنان بڑی تعداد میں شریک ہیں۔

جلسے کے لیے پنجاب اسمبلی کے سامنے کنٹینر پر اسٹیج لگا گیا ہے، کارکنان کے لیے کرسیاں اور  لائٹیں لگائی گئی ہیں۔

جلسے کے لیے مال روڈ کے دونوں اطراف لائٹس کا بھی بندوبست کیا گیا ہے جب کہ احتجاج کے باعث مال روڈ سے ملحقہ سڑکوں پر ٹریفک کا شدید دباؤ ہے۔

شاہراہ فاطمہ جناح،کچہری روڈ، ہال روڈ، کوپر روڈ، بوڑھ والا چوک اور ایجرٹن روڈ پر بھی ٹریفک کی روانی متاثر ہے۔

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اعلان کیا ہےکہ وہ جلسے میں آئندہ کا لائحہ عمل دیں گے۔

جب کہ پی ٹی آئی کے فواد چوہدری نے کہا ہےکہ شہبازشریف کے استعفے تک احتجاج جاری رہے گا۔

متحدہ اپوزیشن کے جلسے سے آصف علی زرداری کا خطاب دوپہر اور عمران کا خطاب مغرب کے قریب متوقع ہے۔

مصطفیٰ کمال کی لاہور آمد

ادھر پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال احتجاج میں شرکت کے لیے لاہور پہنچے ہیں۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ ’ہم خاموش رہتے تو ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہوتا‘۔

انہوں نے کہا کہ لاہور کے لوگوں پر گولیاں چلیں اور اس کا اثر کراچی تک ہوا لہٰذا کراچی کے لوگ بھی توقع رکھتے ہیں کہ ان پر ظلم و زیادتی ہو تو اس کی تکلیف بھی پورا پاکستان، بالخصوص پنجاب اور لاہور کے لوگوں کو بھی ہونی چاہیے۔

پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین کا کہنا تھاکہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کی قربانیاں سے تمام پاکستانیوں کے جانوں کو بچائیں گے۔

سیکیورٹی انتظامات

ڈی آئی جی آپریشز لاہور ڈاکٹر حیدر اشرف کے مطابق جلسے کی سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات ہیں، سیکیورٹی کے لیے 6 ہزار سے زائد پولیس اہلکار فرائض انجام دے رہے ہیں جب کہ 11 ایس پیز اور 24 ڈی ایس پیز بھی، 80 ایس ایچ اوز اور 60 انچارج انویسٹی گیشن بھی سیکیورٹی کے فرائض پر مامور ہیں۔

ڈاکٹر حیدر اشرف نے بتایا کہ جلسہ گاہ میں شرکت کے لیے 4 مقامات مقرر کیے گئے ہیں، شرکت کے لیے آنے والوں کی تین مقامات پر چیکنگ ہوگی۔

ڈی آئی جی کا کہنا ہےکہ ٹریفک کی روانی کے لیے بھی مؤثر حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے، ناصرباغ، نیلاگنبد، باغ جناح اور پنجاب اسمبلی کے عقب میں پارکنگ بنائی گئی ہے، شہری ٹریفک وارڈنز کی ہدایات پر عمل کریں۔

رینجرز تعینات

پنجاب حکومت نے متحدہ اپوزیشن کے احتجاج کے موقع پر لاہور شہر میں رینجرز کو طلب کیا ہے، پنجاب اسمبلی سمیت دیگر اہم سرکاری عمارتوں پر رینجرز کی نفری تعینات کی گئی ہے۔

وزیر قانون پنجاب رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ احتجاج کے موقع پر پولیس اہلکار غیر مسلح ہوں گے، جب تک مظاہرین سرکاری یا نجی املاک کو نقصان نہیں پہنچائیں گے تب تک طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے 8 جنوری کو آل پارٹیز کانفرنس کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس بعد پریس کانفرنس کے دوران  17 جنوری سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ اب وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ سے استعفے مانگیں گے، نہیں بلکہ لیں گے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن

یاد رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا۔

اس موقع پر پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت اور پولیس آپریشن کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک اور 90 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔

پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے 5 رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی جس کی رپورٹ میں وزیراعلیٰ شہباز شریف اور وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ خان کو بے گناہ قرار دیا گیا تھا۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ چھان بین کے دوران یہ ثابت نہیں ہوا کہ وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزیر قانون فائرنگ کا حکم دینے والوں میں شامل ہیں۔

دوسری جانب اس واقعے کی جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں عدالتی تحقیقات بھی کرائی گئیں، جسے منظرعام پر نہیں لایا گیا تھا۔

جس کے بعد عوامی تحریک کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا، جس نے پنجاب حکومت کو مذکورہ انکوائری رپورٹ جاری کرنے کا حکم دیا۔

ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ سامنے آنے کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری نے دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے شروع کردیئے اور حکومت کے خلاف ایک گرینڈ اپوزیشن الائنس بنایا گیا۔